إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ ۚ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ
بے شک وہ لوگ جو اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دل اللہ نے تقویٰ کے لیے آزمالیے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور بہت بڑا اجر ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : نبی (ﷺ) کو اونچی اور دور سے بلانے والوں کے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ کے رسول کے سامنے آہستہ اور قریب ہو کر بات کرتے ہیں ان کا مقام اور انعام۔ نبی (ﷺ) کی آواز سے جو لوگ اپنی یاکسی کی آواز کو اونچا سمجھتے اور کرتے ہیں ان کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے اپنی آواز آہستہ رکھتے ہیں حقیقت میں وہی آپ کا ادب اور احترام کرنے والے ہیں۔ نبی (ﷺ) کے سامنے اپنی آواز کو نیچا رکھنے اور آپ کا ادب کرنے والوں کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے ساتھ آزمایا لیا ہے۔ کیونکہ حقیقت میں انہی کے دلوں میں اللہ کا خوف اور اس کے حکم کا احترام پایا جاتا ہے جس وجہ سے وہ اللہ کے رسول کی ذات اور بات کا احترام کرتے ہیں۔ جن کے دلوں میں نبی کریم کا احترام، اللہ کی ذات کا خوف اور اس کے حکم کا احترام ہوگا ان کے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور انہیں اجر عظیم سے ہمکنار کیا جائے گا۔ اس خطاب میں سب سے پہلے صحابہ کرام (رض) کی جماعت مراد ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا خوف اور احترام اختیار کیا اور رسول محترم کے احترام کا حق ادا کیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں تقویٰ پیدا کردیاتھا۔ (الفتح :26) اور ان کا امتحان بھی لے لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف لوگوں کی آواز سنتا اور ان کے اعمال دیکھتا ہے بلکہ وہ دلوں کے حال بھی جاننے والا ہے۔ جو شخص اپنے دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہے اس کی زبان اور اس کے ا عمال پر تقویٰ کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ تقویٰ ہی انسان کو صراط مستقیم اور نبی (ﷺ) کی ذات اور بات کا احترام سکھلاتا ہے۔ تقویٰ ہی تمام اعمال کا مقصود اور مطلوب ہے۔ جب تک نبی محترم (ﷺ) دنیا میں حیات اور موجود تھے اس وقت آپ کا احترام یہ تھا کہ آپ کی مجلس میں اونچی آواز سے نہ بولاجائے اب اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ذات اور ارشاد کو اپنی اور ہر بزرگ کی بات اور ذات سے اونچا سمجھا جائے۔ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کے دلوں کو تقویٰ کے ساتھ آزمایا جس پر صحابہ پورے اترے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے تمام گناہ معاف فرمادیئے اور انہیں اجر عظیم سے سرفراز فرمایا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں کو معاف کرے گا اور انہیں اجر عظیم عنایت فرمائے گا۔