لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا
بلاشبہ یقیناً اللہ ایمان والوں سے راضی ہوگیا، جب وہ اس درخت کے نیچے تجھ سے بیعت کر رہے تھے، تو اس نے جان لیا جو ان کے دلوں میں تھا، پس ان پر سکینت نازل کردی اور انھیں بدلے میں ایک قریب فتح عطا فرمائی۔
فہم القرآن: (آیت18سے19) ربط کلام : معذور لوگوں کو جہاد سے مستثنیٰ قرار دینے کے بعد جہاد میں شریک ہونے والے مجاہدین کے لیے انعام کا اعلان۔ قرآن مجید کا یہ بھی اسلوب بیان ہے کہ کبھی واقعہ کی جزیات پہلے بیان کی جاتی ہیں اور اس کا مرکزی مضمون بعد میں ذکر کیا جاتا ہے تاکہ پڑھنے والے کے دل میں جستجو پیدا ہو اور وہ فکری طور پر لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھتا ہوا واقعہ کے مرکزی مضمون اور اس کی اصل روح تک پہنچ جائے۔ اس لیے صلح حدیبیہ سے پہلے رونما ہونے والے واقعات کا ذکر کیا اور اب واضح الفاظ میں صلح حدیبیہ کا ذکر کیا جاتا ہے جسے بیعت رضوان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس صلح پر اپنی تائید اور خوشنودی کا اظہار فرما کر بیعت میں شامل ہونے والے مومنوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ اللہ مومنوں پر راضی ہوگیا جنہوں نے ایک درخت کے نیچے آپ (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کے اخلاص کو جان چکا تھا اس لیے ان پر سکینت اور اطمینان نازل فرمایا اور بہت جلد انہیں فتح سے ہمکنار کیا جائے گا۔ بیعت رضوان کی قدرے تفصیل پچھلی آیت کی تفسیر میں گزر چکی ہے اس لیے اس مقام پر صرف اس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔ نبی محترم (ﷺ) چودہ سو صحابہ (رض) کے ساتھ مدینہ سے مکہ کی طرف نکلے تاکہ عمرہ ادا کیا جائے۔ لیکن کفار نے حرم کا احترام اور بین الاقوامی اخلاق کی پرواہ کیے بغیر آپ (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ داخل ہونے کی اجازت نہ دی اس موقعہ پر دونوں طرف سے مذاکرات ہوئے بالآخر ایک معاہدہ طے پایا جس کی شرائط کا ذکر اسی سورت کی آیت 10کی تفسیر میں ہوچکا ہے۔ جس میں چودہ سو صحابہ (رض) نے آپ کے ہاتھ پر اس بات پر بیعت کی کہ ہم کٹ جائیں گے لیکن پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس موقع پر آپ (ﷺ) نے حضرت عثمان (رض) کی طرف سے بیعت کرتے اپنا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ گویا کہ آپ (ﷺ) نے اپنے ہاتھ کو عثمان (رض) کا ہاتھ قرار دیا یہ ایسا اعزاز ہے جو حضرت عثمان (رض) کے سوا کسی صحابی کو نصیب نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر مسلمانوں پر درج ذیل انعامات فرمائے۔ (فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) بِیَدِہِ الیُمْنَی ہَذِہِ یَدُ عُثْمَانَ فَضَرَبَ بِہَا عَلَی یَدِہِ، فَقَالَ ہَذِہِ لِعُثْمَانَ) (رواہ البخاری : بَابُ مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِی عَمْرٍو القُرَشِیِّ) ” رسول اللہ (ﷺ) نے بیعت رضوان کے موقع پر اپنے دائیں ہاتھ کو دیکھ کر فرمایا یہ عثمان (رض) کا ہاتھ ہے آپ نے اس ہاتھ کو دوسرئے ہاتھ پر رکھا اور فرمایا کہ یہ عثمان کی طرف سے ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان کرنے والوں کے دلوں کے خلوص کی گواہی دی 2۔ اللہ تعالیٰ نے بیعت کرنے والے چودہ سو صحابہ کرام (رض) کو اپنی رضامندی کاسر ٹیفکیٹ دیا۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر سکینت نازل فرمائی جس بنا پر مسلمان تھوڑے اور نہتے ہونے کے باوجود مکہ والوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ڈٹ گئے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان کرنے والوں کو بہت جلد مکہ کی فتح کی خوشخبری دی چنانچہ دو سال سے قبل مکہ فتح ہوگیا۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سارا مال غنیمت عطا کرنے کی نوید سنائی جو صلح حدیبیہ کے بعد خیبر اور پھر مکہ کی فتح کے متصل بعد غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کو حاصل ہوئی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ غالب حکمت والاہے : 1۔ ” اللہ“ اپنے ہر کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (یوسف :21) 2۔ ” اللہ“ جب کسی کام کا ارادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ کام ہوجاتا ہے۔ (البقرۃ:117) 3۔ ” اللہ“ اپنے بندوں پر غالب ہے اس نے اپنے بندوں کی حفاظت کے لیے فرشتے مقرر کیے ہوئے ہیں۔ (الانعام :61) 4۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (الحشر :1) 5۔ جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے یقیناً اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (الانفال :49) 6۔ اللہ قوی اور غالب ہے۔ ( المجادلہ :21) 7۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرۃ :20) 8۔ مدد تو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو آتی ہے یقیناً اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (الانفال :10)