سورة الفتح - آیت 17

لَّيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَمَن يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

نہیں ہے اندھے پر کوئی تنگی اور نہ لنگڑے پر کوئی تنگی اور نہ بیمار پر کوئی تنگی اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے گا وہ اسے ان باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں اور جو پھر جائے گا وہ اسے سزا دے گا، دردناک سزا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں جہاد میں شمولیت نہ کرنے والوں کو اذّیت ناک عذاب کی وعیدسنائی گئی ہے۔ اب ان لوگوں کو مستثنیٰ قراردیا جاتا ہے جو جہاد کرنے سے معذور ہیں۔ اندھے، لنگڑے اور مریض پر جہاد فرض نہیں۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور قتال فی سبیل اللہ سے جان بوجھ کر اعراض کیا اللہ تعالیٰ اسے اذّیت ناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اس فرمان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قتال فی سبیل اللہ ہر مسلمان پر فرض نہیں۔ اسی اصول کے پیش نظر نبی کریم (ﷺ) نے کچھ لوگوں کو قتال فی سبیل اللہ میں شمولیت کی اجازت نہیں دی تھی۔ شرعی مجبوری کی وجہ سے قتال فی سبیل اللہ سے محروم رہنے والے کو یہ کہہ کر تسلی دی ہے کہ جو بھی اللہ اور اس رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) السَّاعِیْ عَلَی الْأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوِ الْقَائِمِ اللَّیْلَ الصَّائِمِ النَّھَارَ) (رواہ البخاری : باب فضل النفقۃ علی الأھل) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا بیوہ اور مسکین کی مدد کرنے والا۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا رات کو قیام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔“ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فَاسْتَاْذَنَہٗ فِی الْجِھَادِ فَقَالَ اَحَیٌّ وَالِدَاکَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَفیْھِمَا فَجَاھِدْ۔ (متفق علیہ) وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَارْجِعْ اِلٰی وَالِدَیْکَ فَاَحْسِنْ صُحْبَتَھُمَا۔) (رواہ البخاری : باب الجہاد بإذن الأبوین) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضرہوکر جہاد کے لیے اجازت چاہی، آپ (ﷺ) نے پوچھا کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا، جی ہاں! آپ نے فرمایا پھر ان کی خدمت کرو۔ ایک روایت میں ہے واپس جا کر ان کی اچھی طرح خدمت کرو۔“ ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے سال میں چودہ سال کا تھا، مجھے رسول مکرم (ﷺ) کے سامنے پیش کیا گیا، آپ نے مجھے واپس کردیا۔ جنگ خندق کے سال میں پندرہ سال کا ہوا۔ آپ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ (ﷺ) نے مجھے اجازت عطا فرمائی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا یہ مجاہد اور کم عمر والوں کے درمیان فرق ہے۔“ ( رواہ البخاری : باب إِذَا زَکَّی رَجُلٌ رَجُلاً کَفَاہُ) مسائل: 1۔ نابینا، لنگڑا اور مریض قتال فی سبیل اللہ سے مستثنیٰ ہیں 2۔ جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ 3۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ کی اور قتال فی سبیل اللہ کا انکار کیا اسے اذّیت ناک عذاب دیا جائے گا۔ تفسیربالقرآن : قیامت کے دن کن لوگوں کو اذّیت ناک عذاب ہوگا : 1۔ منافقوں کے دلوں میں بیماری ہے ان کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ:7) 2۔ نبی (ﷺ) کی گستاخی کرنے والے کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ:104) 3۔ اللہ کی آیات چھپانے اور فروخت کرنے والے کو دردناک عذاب ہوگا۔ (البقرۃ:174) 4۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ (الدہر :31) 5۔ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے والے اور انبیاء کو قتل کرنے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ (آل عمران :21) 6۔ اللہ کے عہد اور قسموں کو فروخت کرنے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ (آل عمران :77) 7۔ ایمان کے بدلے کفر کو کرنے والوں کو دردناک عذاب ہوگا۔ (آل عمران :177)