إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
بے شک وہ لوگ جو تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے، پھر جس نے عہد توڑا تو در حقیقت وہ اپنی ہی جان پر عہد توڑتا ہے اور جس نے وہ بات پوری کی جس پر اس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ اسے جلدہی بہت بڑا اجر دے گا۔
فہم القرآن: ربط کلام : نبی (ﷺ) کی تعظیم اور تکریم کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ آپ کی اطاعت کی جائے اس لیے آپ (ﷺ) کی اطاعت کی فضیلت اور اس کا اجر بیان کیا گیا ہے۔ آپ (ﷺ) سے جو لوگ بیعت کرتے ہیں وہ یقیناً اللہ سے بیعت کرتے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر تھا۔ جو بیعت کرنے کے بعد اسے توڑ دے اس کا نقصان اسی کو ہوگا اور جو بیعت کرکے اس پر قائم رہے اللہ تعالیٰ اسے بہت جلد اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ بعض مفسرین نے اس بیعت سے مراد دائرہ اسلام میں داخل ہونے والی بیعت لی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بیعت کے تقاضے بھی وہی ہیں جو اس بیعت کے ہیں جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر چودہ سو (1400) صحابہ کرام (رض) نے آپ (ﷺ) کے ہاتھ پر بیعت کی اس کے بارے میں ارشاد ہواکہ جو لوگ آپ کی بیعت کررہے تھے درحقیقت وہ اپنے رب سے بیعت کرتے تھے کیونکہ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر تھا۔ قرآن مجید میں اور بھی مقامات پر اس طرح کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ جس میں رسول (ﷺ) کے کام کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ ایک مقام پر ارشاد ہوا کہ جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (النساء :80) دوسرے مقام پر ارشاد ہوا کہ آپ نے کفار کی طرف مٹی نہیں پھینکی حقیقت میں اللہ نے ان کی طرف مٹی پھینکی تھی۔ (الانفال :17) اس بیعت کے بارے میں ایک مفسر نے کسی حوالے کے بغیر لکھا ہے کہ یہ بیعت عام طریقہ سے ہٹ کر کی گئی تھی۔ بیعت کرنے والے کا ہاتھ نیچے ہوتا تھا اور نبی کریم (ﷺ) اس کے ہاتھ پر اپنا دست مبارک رکھتے تھے۔ جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر تھا۔ اگر اس طرح بیعت نہ بھی کی گئی ہو تو یہ ایک اسلوب بیان ہے جس کے مطابق ہر زبان میں یہ بات کہی جاتی ہے۔ کہ فلاں کے سر پر اللہ کا ہاتھ ہے جس وجہ سے اب تک وہ اپنے دشمنوں سے بچا ہوا ہے۔ بہرحال صلح حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام (رض) نے جو بیعت کی انہوں نے اس کی وفا کا حق ادا کردیا۔ اس وفا کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں نہ صرف مکہ والوں پر برتری عطا فرمائی بلکہ ٹھیک تین مہینے بعد ان کے ہاتھوں خیبر فتح ہوا جس میں بے شمار مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا اور فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین میں ہزاروں کی تعداد میں بھیڑ بکریاں اور سینکڑوں کی تعداد میں دشمن کے قیدی مسلمانوں کے غلام بنے جن کو نبی (ﷺ) نے بہت جلد آزاد کردیا۔ تفصیل کے لیے کسی مستند سیرت کی کتاب کا مطالعہ فرمائیں ! مسائل: 1۔ صلح حدیبیہ کے مقام پر ہونے والی بیعت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ 2۔ بیعت اور عہد توڑنے والا اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ 3۔ جس نے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی پاسداری کی اللہ تعالیٰ اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کن لوگوں کو اجر عظیم عطا فرمائے گا : 1۔ ” اللہ“ نیک لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین صلہ دے گا۔ (التوبہ :121) 2۔ ” اللہ“ صابر لوگوں کو ان کے صبر کی بہترین جزا دے گا۔ (النحل :96) 3۔ ” اللہ“ نیکوں کو ان کے اعمال سے بہتر جزا دے گا۔ (العنکبوت :7) 4۔ ” اللہ“ اپنے فضل سے مزیداجر عطا کرے گا۔ (النور :38) 5۔ ہم ان کے اعمال کا انہیں بہتر صلہ عطاکریں گے۔ (النحل :97) 6۔ ہم ایمان لانے والوں کو ان کا اجر دیں گے۔ (الحدید :27) 7۔ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے اجر دیا جائے گا۔ (الزمر :10) 8۔ ایمان لانے والوں، نماز قائم کرنے والوں اور زکوٰۃ دینے والوں کے لیے اللہ کے ہاں اجر ہے۔ (البقرۃ:277)