سورة الفتح - آیت 8

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک ہم نے تجھے گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت8سے9) ربط کلام : کفار، مشرکین اور منافقین کی مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو غالب فرمایا۔ کیونکہ اس نے نبی آخر الزمان (ﷺ) کو اس لیے مبعوث فرمایا تاکہ دین اسلام کو باطل ادیان پر غالب کردے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے نبی! ہم نے آپ (ﷺ) کو حق کی گواہی دینے والا بنا کر مبعوث کیا ہے۔ آپ کی بعثت کا مرکزی مقصد یہ ہے کہ آپ ایمان لانے والوں کو خوشخبری سنائیں اور انکار کرنے والوں کو ان کے برے انجام سے ڈرائیں۔ لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور رسول (ﷺ) کی تعظیم اور معاونت کریں اور اللہ تعالیٰ کو صبح وشام یاد کرتے رہیں۔ قرآن مجید نے کئی مرتبہ بات بتلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں (ﷺ) کو حق کی شہادت دینے کے لیے مبعوث فرمایا ہے اور آپ (ﷺ) خوشخبری دینے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ شہادت کا معنٰی ہے کہ لوگوں کے سامنے بلاخوف و خطر اللہ کی توحید اور دین حق کو پیش کیا جائے۔ جونہی آپ کے ذمے شہادتِ حق کا فریضہ لگایا گیا ہے۔ آپ نے اس کے لیے دن رات ایک کردیئے نہ کاروبار کی طرف توجہ فرمائی اور نہ ہی رات اور دن کے آرام کا خیال کیا۔ اللہ کے راستے میں کھڑے ہوئے تو تیئس سال تک یہ کھڑے رہے۔ یہاں تک کہ اپنے اور بیگانے مان گئے کہ آپ نے شہادتِ حق کا فرض ادا کردیا ہے۔ نبی آخر الزماں (ﷺ) کی بعثت کا مقصد شہادتِ حق ہے اور لوگوں کافرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ذات اور بات پر ایمان لائیں۔ یہ ایمان زبانی کلامی نہیں بلکہ عملاً ہونا چاہیے جس کا تقاضا ہے کہ اللہ کے رسول کی معاونت و تعظیم کی جائے۔ آپ کی معاونت کا معنٰی یہ ہے کہ آپ کی دعوت پر عمل کرتے ہوئے اسے لوگوں تک پہنچایا جائے اور اس کے عملی نفاذ کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر کوشش کی جائے۔ آپ کی تعظیم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی ذات اور بات کا دل وجان سے احترام کیا جائے کیونکہ آپ کی تشریف آوری کا مقصد لوگوں کو اللہ کی ذات اور اس کا ارشاد پہچانا تھا۔ اس لیے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہوئے صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہیں۔ صبح وشام سے مراد ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا چاہیے۔ جس طرح نبی آخرالزماں (ﷺ) نے اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کا طریقہ بتلایا اور کرکے دکھلایا ہے اس میں پانچ وقت کی نماز اور شہادتِ حق کا ابلاغ بھی شامل ہے۔ آپ (ﷺ) کی عالمگیر نبوت : (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ (ﷺ) قَالَ أُعْطِیْتُ خَمْسًا لَمْ یُعْطَھُنَّ نَبِیٌّ قَبْلِیْ وَلَا أَقُوْلُھُنَّ فَخْرًا بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّۃً الْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ وَنُصِرْتُ بالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ وَأُحِلَّتْ لِیَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِیْ وَجُعِلَتْ لِیَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَھُوْرًا وَّأُعْطِیْتُ الشَّفَاعَۃَ فَأَخَّرْتُھَا لِأُمَّتِیْ فَھِیَ لِمَنْ لَّایُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْئًا) (مسند احمد : باب بدایۃ مسند عبداللہ بن العباس) ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ میں اس میں فخر نہیں کرتا۔ میں تمام کالے اور گورے لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں، ایک مہینے کی مسافت تک رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے، میرے لیے غنیمت کا مال حلال قرار دیا گیا ہے جب کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کے لیے حلال نہیں تھا، میرے لیے زمین مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنادی گئی ہے، مجھے شفاعت عطا کی گئی میں نے اسے اپنی امت کے لیے سنبھال رکھا ہے اور وہ ہر اس شخص کی نجات کا ذریعہ بنے گی جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔“ (لَیَبْلُغَنَّ ھٰذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُوَلَایَتْرُکُ اللّٰہُ بَیْتَ مَدَرٍ وَّلَا وَبَرٍإِلَّا أَدْخَلَہُ اللّٰہُ ھٰذَا الدِّیْنَ) (مسند أحمد : باب حدیث تمیم الداری، ھٰذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین) ” یہ دین ہر صورت وہاں تک پہنچے گا جہاں رات کی تاریکی اور دن کی روشنی پہنچتی ہے اور اللہ تعالیٰ ہر کچے پکے گھر میں اس دین کو داخل کردے گا۔“ آپ (ﷺ) کی محبت اور تعظیم : (لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ) (مشکٰوۃ : کتاب العلم، قال النووی ہذا حدیث صحیح) ” تم میں سے کوئی مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی خواہشات کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کر دے۔“ ( عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِیْ قِرَادٍ (رض) أَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) تَوَضَّأَ یَوْمًا فَجَعَلَ أَصْحَابُہٗ یَتَمَسَّحُوْنَ بِوَضُوْئِہٖ فَقَالَ لَھُمُ النَّبِیُّ () وَمَاحَمَلَکُمْ عَلٰی ھٰذَا قَالُوْا حُبُّ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَقَال النَّبِیُّ () مَنْ سَرَّہٗ أَنْ یُّحِبَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ أَوْ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ فَلْیَصْدُقْ حَدِیْثَہٗ إِذَا حَدَّثَ وَلْیُؤَدِّ أَمَانَتَہٗ إِذَا اءْتُمِنَ وَلْیُحْسِنْ جَوَارَ مَنْ جَاوَرَہٗ) (رواہ البہیقی فی شعب الإیمان) ” حضرت عبدالرحمن بن ابی قراد (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے ایک دن وضو کیا۔ آپ کے اصحاب آپ کے وضو کے پانی کو اپنے جسموں پر ملنے لگے۔ نبی (ﷺ) نے ان سے استفسار فرمایا تم ایسا کیوں کررہے ہو؟ انہوں نے عرض کی، اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی وجہ سے۔ نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا جس شخص کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے یا اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ جب بات کرے تو سچ بولے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو امانت کا حق ادا کرے اور اپنے ہمسائیوں سے اچھا برتاؤ کرے۔“ اللہ کا ہر حال میں ذکر کرنا چاہیے : (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَان النَّبِیُّ () یَذْکُرُ اللَّہَ عَلَی کُلِّ أَحْیَانِہِ) (رواہ مسلم : باب ذِکْرِ اللَّہِ تَعَالَی فِی حَالِ الْجَنَابَۃِ وَغَیْرِہَا) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (ﷺ) ہر حال میں اللہ کا ذکر کرتے تھے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزماں (ﷺ) کو حق کی شہادت دینے والا، بشیر اور نذیر بنا کر مبعوث فرمایا۔ 2۔ آپ (ﷺ) کی تشریف آوری کا مقصد یہ تھا کہ لوگ اللہ اور آپ (ﷺ) پر ایمان لائیں۔ 3۔ لوگوں کا فرض ہے کہ وہ نبی آخر الزماں کی مدد کریں۔ 4۔ ایمانداروں کا فرض ہے کہ وہ آپ (ﷺ) کی تعظیم کرتے رہیں۔ 5۔ ایمان داروں کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صبح وشام تسبیح کیا کریں۔ تفسیر بالقرآن: نبی آخرالزماں (ﷺ) کی عالمگیر نبوت اور اس کے تقاضے : 1۔ اے رسول اعلان فرمائیں کہ ” اللہ“ نے مجھے تمام لوگوں کے لیے رسول منتخب فرمایا ہے۔ (الاعراف :158) 2۔ آپ (ﷺ) پوری دنیا کے رسول ہیں۔ (سباء :28) 3 ۔ رسول اللہ (ﷺ) مبشر اور نذیر ہیں۔ (الاحزاب :45) 4۔ رسول اللہ (ﷺ) پوری دنیا کے لیے رحمت عالم ہیں۔ (الانبیاء :107) 5۔ رسول اللہ خاتم النبیین ہیں۔ (الاحزاب :40) 6۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (ﷺ) کو نبوت اور حکمت عنایت فرمائی۔ ( الجمعہ :2) 7۔ آپ (ﷺ) کی نبوت مومنوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (آل عمران :164)