سورة محمد - آیت 32

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَشَاقُّوا الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدَىٰ لَن يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَسَيُحْبِطُ أَعْمَالَهُمْ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا اور رسول کی مخالفت کی، اس کے بعد کہ ان کے لیے سیدھا راستہ صاف ظاہر ہوگیا، وہ ہرگز اللہ کا کوئی نقصان نہ کریں گے اور عنقریب وہ ان کے اعمال ضائع کر دے گا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 32 سے 33) ربط کلام : منافقین کے بعد کفار کے کردار اور انجام کا ذکر۔ جو لوگ ہدایت واضح ہوجانے کے باوجود اپنے کفر پر قائم رہتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور رسول (ﷺ) کی مخالفت کرتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ” اللہ“ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اللہ تعالیٰ ان کا سب کچھ بگاڑ سکتا ہے اور بگاڑ دے گا۔ اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع ہونے سے بچاؤ۔ ان آیات میں دواصول بیان کیے گئے ہیں۔ 1۔ جو لوگ ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی کفر پر قائم رہتے ہیں اور رسول کی مخالفت کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ان کے برے عقیدہ اور کردار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کے بھلے کام بھی ضائع کردے گا۔ (عَنْ عَائِشَۃ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ () ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِ اغْفِرْلِیْ خَطِیْئَتِیْ یَوْمَ الدِّیْنِ) (رواہ مسلم : باب الدلیل علی من مات علی الکفر لاینفعہ عمل) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے نبی کریم (ﷺ) سے سوال کیا کہ ابن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا تھا کیا اسے یہ کام نفع دیں گے؟ آپ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ : اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف فرمادینا۔“ اللہ کے رسولوں کی مخالفت کا ایک معنٰی یہ بھی ہے کہ کوئی شخص نبی (ﷺ) کی سنت جانتے ہوئے اس کی مخالفت کرے۔ یا جان بوجھ کر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف چلے بے شک وہ ایمان لانے کا دعوے دار ہو لیکن اگر وہ اللہ کے رسول کے طریقے کے خلاف چلتا ہے تو حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے۔ اس اعتبار سے جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے نکل کر اعمال کرے گا بے شک وہ اعمال بظاہر کتنے ہی اچھے اور بھلے کیوں نہ ہوں۔ مگر کتاب و سنت کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے سب کے سب ضائع ہوجائیں گے۔ اس لیے مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ہر حال میں اللہ کی اطاعت اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو اور اپنے اعمال کو ضائع ہونے سے بچاؤ۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ) (رواہ مسلم : باب نَقْضِ الأَحْکَامِ الْبَاطِلَۃِ وَرَدِّ مُحْدَثَاتِ الأُمُورِ) ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا جس نے ہمارے دین میں نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے وہ ردّ ہوگی۔“ ” حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا میں تمھارا حوض کوثر پر انتظار کروں گا جو بھی میرے پاس آئے گا وہ اس سے پیے گا اور جو شخص بھی اس سے ایک مرتبہ پیے گا وہ کبھی پیاس محسوس نہیں کرے گا۔ میرے پاس کچھ لوگ آئیں گے وہ مجھے پہچان لیں گے اور میں انھیں اپنے امتی کے طور پر سمجھوں گا پھر میرے اور ان کے درمیان پردہ حائل ہوجائے گا ابو حازم نے کہا نعمان بن ابی عیاش نے مجھ سے سنا اور کہا کیا تم نے اسی طرح سہل سے سنا ہے میں نے کہا ہاں، پس اس نے کہا میں ابو سعید خدری (رض) سے سنا وہ اس میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا یہ تو میرے امتی ہیں کہا جائے گا آپ نہیں جانتے آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا بدعتیں شروع کیں میں ان سے کہوں گا دور ہوجاؤ دور ہوجاؤ جس نے میرے بعد دین کو بدل ڈالا۔“ (رواہ البخاری : کتاب الرقاق باب الحوض) مسائل: 1۔ کفار کے کفر کی وجہ سے ان کے تمام کے تمام اعمال ضائع کردیئے جائیں گے۔ 2۔ جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے باوجود اللہ کے راستے سے روکتا ہے اس کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے۔ 3۔ رسول (ﷺ) کی مخالفت کرنے والے اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اللہ تعالیٰ ان کا سب کچھ ضائع کردے گا۔ تفسیر بالقرآن: ایمانداروں کو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی چاہیے : 1۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (آل عمران :132) (الانفال :46)(المائدۃ:92)(النساء :59)(محمد :33)(الاحزاب :71)(آل عمران :31)(النساء :69)