سورة محمد - آیت 29

أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَن لَّن يُخْرِجَ اللَّهُ أَضْغَانَهُمْ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یا ان لوگوں نے جن کے دلوں میں کوئی بیماری ہے، یہ خیال کرلیا ہے کہ اللہ ان کے کینے کبھی ظاہر نہیں کرے گا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 29 سے 31) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ منافقین کی بری عادات کا ذکر جاری ہے۔ اَضْغَانَ“ کا واحد ” ضغن“ ہے جس کا معنٰی حسد وبغض اور کینہ ہے۔ منافق یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے حسد وبغض کو ظاہر نہیں کرے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو منافقوں کو اس طرح آشکارہ کردیتا کہ تمام مسلمان ان کو اچھی طرح پہچان لیتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے کرم اور شفقت کی بنا پر ان کی پردہ پوشی کیے ہوئے ہے۔ البتہ اس نے منافقین کے لیڈروں کو کافی حد تک ظاہر کردیا ہے۔ اس بنا پر آپ ان کے کردار اور انداز گفتگو سے انہیں اچھی طرح پہچان سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے اور تمہیں ایک دوسرے کے ساتھ اور اپنے ارشادات کے ذریعے آزماتا ہے تاکہ تم میں سے مجاہدین اور صبر کرنے والوں کو ممتاز کر دے اور جس سے تمہارے فکر و عمل کی پہچان ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی کے فکر وعمل اور مجاہدین اور صبر کرنے والوں کو پہچاننے کا معنٰی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے فکر و عمل سے بے خبر ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کیونکہ اسی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ انسان سوچتا ہے اور جو عمل کرتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے بارے میں یہ الفاظ استعمال کرتا ہے۔ تو اس کا یہ معنٰی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار اور منافقین کو مخلص مسلمانوں کے سامنے آشکارہ کرنا چاہتا ہے تاکہ مسلمان اپنے اور بیگانوں کی اچھی طرح پہچان کرسکیں۔ (عَنْ صُھَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُؤْمِنِ اِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ لَہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَالِکَ لِاَحَدٍ اِلَّا لِلْمُؤْمِنِ اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَفَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَاِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَا نَ خَیْرًا لَّہُ) (رواہ مسلم : باب الْمُؤْمِنُ أَمْرُہُ کُلُّہُ خَیْرٌ) ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا : ایمان دار شخص کی حالت پر رشک آتا ہے۔ وہ اپنے معاملات میں، ہر صورت میں بہتر ہے اور یہ اعزاز صرف ایمان دار کو حاصل ہوتا ہے۔ اگر اسے خوشی حاصل ہو تو شکر کرتا ہے اس کا شکر اس کے لیے بہتر ہے۔ اگر اسے تکلیف پہنچے تو صبر کرتا ہے، یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو لوگوں کے عیوب کو آشکارہ کردے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے منافقوں کو آشکارہ کردیا۔ 3۔ منافق اپنے کردار اور گفتار سے پہچانا جاتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو آزماتا ہے تاکہ مومنوں کو مجاہدین اور صابرین کا علم ہوجائے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ لوگوں کی آزمائش کرتا ہے : 1۔ جنت میں داخلہ کے لیے آزمائش شرط ہے۔ (العنکبوت :2) 2۔ پہلے لوگوں کو بھی آزمایا گیا۔ (العنکبوت :3) 3۔ ڈر سے آزمائش۔ (البقرۃ:155) 4۔ فاقوں سے آزمائش۔ (البقرۃ:155) 5۔ مال و جان کی کمی کے ساتھ آزمائش۔ (البقرۃ:155) 6۔ ” اللہ“ نے موت وحیات کو انسان کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ (الملک :2) 7۔ ” اللہ“ نے آزمائش کے لیے بعض کو بعض پر فوقیت دی۔ ( الانعام :166) 8۔ مال اور اولاد انسان کے لیے آزمائش ہیں۔ (التغابن :15) 9۔ آزمائش میں ثابت قدمی کے بعد اللہ کی مدد یقینی اور قریب ہوا کرتی ہے۔ (البقرۃ:214) 10۔ جنت میں داخلے کے لیے آزمائش ضروری ہے۔ (آل عمران :142)