وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ ۖ فَإِذَا أُنزِلَتْ سُورَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَذُكِرَ فِيهَا الْقِتَالُ ۙ رَأَيْتَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَأَوْلَىٰ لَهُمْ
اور وہ لوگ جو ایمان لائے کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی محکم سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں لڑائی کا ذکر کیا جاتا ہے تو تو ان لوگوں کو دیکھے گا جن کے دلوں میں بیماری ہے، وہ تیری طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے اس شخص کا دیکھنا ہوتا ہے جس پر موت کی غشی ڈالی گئی ہو۔ پس ان کے لیے بہتر ہے۔
فہم القرآن: (آیت 20 سے 21) ربط کلام : منافقین کے ذکر کے بعد ان لوگوں کا تذکرہ جو ابھی تک اپنے ایمان میں پختہ نہیں تھے۔ مکہ معظمہ میں کچھ مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ ہمیں کفار کے خلاف قتال کرنے کی اجازت دی جائے لیکن قتال کی اجازت کی بجائے انہیں یہ حکم ہوا کہ لڑائی سے اپنے ہاتھ بند رکھو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیتے رہو۔ (النساء :77) جب ہجرت کے بعد دو ٹوک انداز میں قتال فی سبیل اللہ کا حکم نازل ہوا تو جن لوگوں کے دلوں میں ایمان کمزور تھا اور بزدلی تھی وہ اس حکم سے اس طرح تھرا گئے جس طرح ان پر موت کی بے ہوشی طاری ہوچکی ہو۔ ان کے بارے میں یہ فرمان جاری ہوا کہ جو لوگ قتال فی سبیل اللہ کا حکم سن کر اس کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے لیے ہلاکت اور بربادی ہے۔ اس ہلاکت سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کی جائے اور لوگوں کو اچھی بات کی تبلیغ کرتے ہوئے قتال فی سبیل اللہ کے لیے تیار ہوا جائے۔ اگر یہ لوگ اپنے ایمان میں سچے اور مضبوط ہوتے تو یہ کام انہیں ضرور کرنے چاہیں تھے۔ ایسا کرنا ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بہتر ہوتا۔ یہاں قتال فی سبیل اللہ سے کترانے والوں کے لیے ہلاکت کا لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ جو لوگ جنگ مسلط ہوجانے کے باوجود اپنا دفاع نہیں کرتے وہ دشمن کے ہاتھوں ذلیل اور تباہ ہوجاتے ہیں۔ ذلت اور تباہی سے بچنے کے لیے مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے۔ ” اور ان کے مقابلے میں تیاری کرو پوری قوت اور اسے بندھے ہوئے گھوڑوں سے جس کے ساتھ تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو اور ان کے علاوہ دوسروں کو ڈراتے رہو، جنہیں تم نہیں جانتے۔ انہیں اللہ جانتا ہے اور جو چیز بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ تمہاری طرف لوٹائی جائے گی اور تم پر زیادتی نہیں کی جائے گی۔“ ( الانفال :60) ﴿اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاہِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (التوبہ :41) ” نکلو ہلکے ہو یا بوجھل اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھنے والے ہو۔“ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمْوْبِقَاتِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَاھُنَّ قَالَ اَلشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبَا وَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیْمِ وَالتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ) (رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ :﴿إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا﴾) ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو صحابہ (رض) نے عرض کی اللہ کے رسول (ﷺ) ! یہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ناحق کسی جان کو قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اور پاکدامن، مومن، بے خبر عورتوں پر تہمت لگانا۔“ مسائل: 1۔ بزدل اور منافق انسان قتال فی سبیل اللہ سے کتراتے ہیں۔ 2۔ جو لوگ قتال فی سبیل اللہ سے کتراتے ہیں وہ دشمن کے ہاتھوں ذلیل اور ہلاک ہوجاتے ہیں۔ مسلمان کو اللہ اور اس کے رسول کی اتباع کرتے ہوئے قتال فی سبیل اللہ کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ 3۔ اللہ اور رسول کی اتباع کا تقاضا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کرتے رہیں۔ تفسیر بالقرآن: قتال فی سبیل اللہ اور حق بات کی تبلیغ کرنے کا حکم : (الانفال :65) (النساء :75) (الانفال :57) (التحریم :6) (آل عمران :104)