يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم جما دے گا۔
فہم القرآن: (آیت 7 سے 9) ربط کلام : مسلمانوں کو جنگ کے دوران کفار کے ساتھ پوری قوت کے ساتھ لڑنے کا حکم دینے کے بعد ان کی مدد کرنے کی یقین دہانی اور اس کی بنیاد۔ اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ بھی تمہاری مدد فرمائے گا اور ہر میدان میں تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔ یاد رکھو! کہ کفار کے لیے ہلاکت ہے اور ان کے اعمال ضائع کردئیے جائیں گے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کو قبول کرنا پسند نہیں کیا۔ اس لیے ان کے اعمال غارت کردیئے جائیں گے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک طرف مجاہدین کو اپنی مدد کی یقین دہانی کروائی ہے اور دوسری طرف کفار کے اعمال ضائع کرنے اور ان کی کوششوں کو ناکام کرنے کی خوشخبری دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو اپنی مدد کی یقین دہانی کرواتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔ غور فرمائیں! کہ ” اللہ“ وہ ہے جو کسی لحاظ سے کسی کی مدد اور تعاون کا محتاج نہیں اور جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کسی کی معاونت اور مدد کا محتاج ہے وہ پرلے درجے کافر اور مشرک ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو فرمایا کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو ” اللہ“ تمہاری مدد فرمائے گا۔ اس ارشاد میں یہ بات سمجھانا مقصود ہے کہ اے مسلمانو! جب تم دین کی حمایت میں لڑنے اور کمزوروں کی مدد کرتے ہو۔ سمجھو کہ تم اللہ کی مدد کرتے ہو۔ یہ الفاظ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ جس دین کی سربلندی کے لیے مجاہد لڑتے ہیں وہ دین ” اللہ“ نے ہی نازل فرمایا ہے، کمزوروں اور مظلوموں کی مدد کرنے کا حکم بھی اسی نے دیا ہے۔ اس لحاظ سے دین اور کمزوروں کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَا مِنْ اَیَّامِ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھِنَّ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوْا یَارَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَلاَ الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَ لَا الْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ الاَّرَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ فَلَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذٰلِکَ بِشَیءٍ) (رواہ الترمذی : باب ماجَاءَ فِی الْعَمَلِ فِیْ اَیَّامِ الْعَشْرِ، قال البانی صحیح) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا : کوئی دن ایسا نہیں کہ اس میں نیک عمل اللہ کے نزدیک عشرۂ ذی الحجہ کے دنوں سے زیادہ پسند ہو، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ (ﷺ) کیا اللہ کی راہ میں لڑ نا بھی اس کے برابر نہیں، فرمایا نہیں اللہ کی راہ میں لڑنا بھی اس کے برابر نہیں، مگر وہ مجاہد جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلا، پھر ان میں سے کسی چیز کے ساتھ واپس نہیں ہوا۔“ مسائل: 1۔ اللہ کے دین کی مدد کرنا ” اللہ“ کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر میدان میں اپنے بندوں کو ثابت قدم رکھتا ہے۔ 3۔ کفار کے لیے ہلاکت ہے اور ان کے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے کیونکہ وہ ” اللہ“ کے نازل کردہ حق کو نہیں مانتے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام (علیہ السلام) اور اپنے بندوں کی مدد فرمائی ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی مدد فرمائی اور ان کے مخالفوں کو غرق کردیا۔ (الشعراء :120) 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی مدد فرمائی اور ان کے دشمن کو غرق کردیا۔ (الشعراء : 66، 67) 3۔ ابرہہ کے مقابلے میں بیت اللہ کا تحفظ فرمایا۔ (الفیل : مکمل) 4۔ بنی اسرائیل کے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (القصص :5) 5۔ ” اللہ“ نے عیسیٰ ابن مریم کو معجزات سے نوازا اور روح القدس کے ساتھ اس کی مدد فرمائی۔ (البقرۃ:87) 6۔ غار ثور میں نبی (ﷺ) اور ابوبکر (رض) کی مدد فرمائی۔ (التوبہ :40) 7۔ بدر میں اللہ تعالیٰ نے کمزوروں کی مدد فرمائی۔ (آل عمران :123) 8۔ اللہ اپنی مدد کے ساتھ جس کی چاہتا ہے نصرت فرماتا ہے۔ (الروم :5) 9۔ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہتر مدد کرنے والا ہے۔ (آل عمران :150)