وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور جو اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول نہ کرے گا تو نہ وہ زمین میں کسی طرح عاجز کرنے والا ہے اور نہ ہی اس کے سوا اس کے کوئی مددگار ہوں گے، یہ لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ جنوں کے وفد کا اپنے ساتھیوں سے خطاب۔ جنوں کے وفد نے قرآن اور نبی (ﷺ) پر ایمان لانے کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو یہ بھی بتلایا کہ جس نے داعی الیٰ اللہ کی دعوت قبول نہ کی وہ اللہ تعالیٰ کو زمین میں عاجز اور بے بس نہیں کرسکتا۔ اگر اللہ تعالیٰ اس کی گرفت کرنے پر آئے تو اس کی کوئی حمایت کرنے والا نہیں ہوگا۔ جنہوں نے داعی الیٰ اللہ کی دعوت قبول نہ کی وہ کھلی گمراہی میں مبتلا رہیں گے۔ جنوں کے وفدنے اپنے ساتھیوں کو دعوت دیتے ہوئے یہ بات بھی باور کروائی کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقابلے میں ہمیں زیادہ قوت عطا فرمائی ہے۔ لیکن ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ قوت والا ہے۔ اگر وہ ہمیں پکڑنا چاہے تو اسے کوئی بے بس اور عاجز نہیں کرسکتا اور نہ ہی ہمارا کوئی حمایتی اور مددگار ہوگا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لاؤ گے تو اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں کمی اور نقص واقع نہیں ہوگا۔ جنوں نے اپنے ساتھیوں کو بین السطور یہ بات بھی سمجھادی کہ ہمارے ایمان لانے سے ہمیں ہی فائدہ ہوگا اور انکار کرنے پر ہمیں عذاب دیا جائے گا۔ لہٰذا ہمیں قرآن مجید پر ایمان لانا چاہیے یہی بات موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو سمجھائی تھی۔ ﴿وَقَالَ مُوْسٰى اِنْ تَكْـفُرُوا اَنْتُـمْ وَمَنْ فِى الْاَرْضِ جَـمِيْعًا فَاِنَّ اللّـٰهَ لَغَنِىٌّ حَـمِيْدٌ﴾ (ابراہیم :8) ” تم اور جو کوئی زمین میں ہے وہ اپنے کفر کا اعلان کردے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر اعتبار سے غنی اور لائقِ تعریف ہے۔“ (عَنْ أَبِی ذَرٍّ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) فِیمَا رَوَی عَنِ اللَّہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی أَنَّہُ قَالَ یَا عِبَادِی إِنَّکُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّی فَتَضُرُّونِی وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِی فَتَنْفَعُونِی یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَتْقَی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مَا زَادَ ذَلِکَ فِی مُلْکِی شَیْئًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِی شَیْئًا یَا عِبَادِی لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوا فِی صَعِیدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِی فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَہُ مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِی إِلاَّ کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ) (رواہ مسلم : کتاب البر والصلۃ و الآداب، باب تحریم الظلم) ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے میرے بندو! تم مجھے نقصان اور نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ میرے بندو! تمہارے تمام اگلے پچھلے جن وانس سب سے زیادہ متّقی انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری سلطنت میں ذرّہ بھر اضافہ نہیں کرسکتے۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے جن وانس سب بدترین فاسق وفاجر انسان کے دل کی طرح ہوجائیں تو یہ میری حکومت میں کچھ نقص واقع نہیں کرسکتا۔ میرے بندو! تمہارے اگلے پچھلے‘ جن وانس اگر سب کھلے میدان میں اکٹھے ہوجائیں اور مجھ سے مانگنے لگیں اور میں ہر کسی کو اس کی منہ مانگی مرادیں دے دوں تو میرے خزانوں میں اتنی کمی بھی واقع نہیں کرسکتے جتنی سوئی کو سمندر میں ڈبونے سے ہوتی ہے۔“ مسائل: 1۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی بات قبول نہ کی وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ 3۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لاتے وہ کھلی گمراہی میں مبتلاہوتے ہیں۔ تفسیربالقرآن: کھلی گمراہی میں مبتلا ہونے والے لوگ : 1۔ نبی (ﷺ) کی بعثت سے پہلے لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ (آل عمران : 164، الجمعۃ :2) 2۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ واضح گمراہی میں مبتلا ہوگا۔ (الاحزاب :36) 3۔ وہ شخص بہت بڑا ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (الانعام :21) 4۔ کفار ” اللہ“ کے راستہ سے روکنے والے اور دور کی گمراہی میں ہیں۔ (النساء :167) 5۔ جس نے اللہ، رسول، ملائکہ، کتابوں اور دن آخرت کا انکار کیا وہ پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا ہوا۔ (النساء :136) 6۔ ” اللہ“ کے سوا غیروں کو پکارنے والے گمراہ ہیں۔ (الاحقاف :5)