سورة الأحقاف - آیت 13

إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک وہ لوگ جنھوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے، پھر خوب قائم رہے، تو ان پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 13 سے 14) ربط کلام : قرآن مجید جن لوگوں کو خوشخبری سناتا ہے ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے رب پر ایمان لاتے ہیں اور تادم آخر اس پر پکے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی تیسری آیت میں اپنی توحید کی یہ دلیل دی ہے کہ جو لوگ ” اللہ“ کے سوا دوسروں کو مانتے اور پکارتے ہیں۔ اے نبی! ان سے فرمائیں کہ یہ زمینوں اور آسمانوں میں کسی ایسی چیز کی نشاندہی کریں جو ان کے معبودوں نے پیدا کی ہو یا اللہ کی کسی تخلیق میں وہ شریک کار ہوں۔ پھر فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جوکتاب دی گئی اسی کی ہدایت اور دعوت یہ تھی کہ ” اللہ“ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے اور قرآن مجید بھی یہی دعوت دیتا ہے۔ دعوت توحید کا پہلا اور آخری تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ اس بات کا اقرار اور اظہار کریں وہ تادم آخر اس پر پکے رہیں ان کے لیے خوشخبری ہے کہ ان کی موت کے وقت سے لے کر جنت میں داخلے تک اور پھر جنت میں داخل ہونے کے بعد ان پر نہ خوف ہوگا اور نہ ہی یہ حزن و ملال سے دوچار ہوں گے۔ یہ لوگ ہمیشہ جنت میں بسیرا کریں گے جو ان کے اعمال کا صلہ ہوگا۔ اسی بات کو دوسرے مقام پر قدرے تفصیل کے ساتھ یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب ” اللہ“ ہے اور اس پر ثابت قدم رہے یقیناً ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، اور نہ غم کرو، بلکہ اس جنت کے بارے میں خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گے، وہاں جو چاہو گے تمہیں ملے گا اور جس کی خواہش کرو گے اسے پاؤ گے۔ یہ اس ” ب“ کی طرف سے مہمان نوازی ہے جو غفور ورحیم ہے۔“ (حٰم السجدۃ 30تا32) (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () مَنْ کَانَ آخِرُ کَلَامِہِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ) ( رواہ ابوداؤد : کتاب الجنائز، باب فی التلقین، قال الشیخ البانی صحیح) ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جس کا آخری کلام ” لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ“ ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ (وَعَنْ سُفْیَانَ ابْنِ عَبْدِاللّٰہِ الثَّقَفِیِّ (رض) قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ () قُلْ لِّیْ فِی الْاِسْلَامِ قَوْلًا لَّا اَسْاَلُ عَنْہُ اَحَدًا بَعْدَکَ وَفِیْ رِوَایَۃٍ غَیْرَکَ قَالَ قُلْ اٰمَنْتُ باللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ) (رواہ مسلم : باب جامِعِ أَوْصَافِ الإِسْلاَمِ) ” حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول محترم (ﷺ) کی خدمت میں عرض کی مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات ارشاد فرمائیں کہ آپ (ﷺ) کے بعد کسی سے سوال کرنے کی ضرورت باقی نہ رہے دوسری روایت میں ہے کہ ” آپ کے علاوہ“ کسی سے پوچھنے کی حاجت نہ رہے۔ فرمایا ” اللہ“ پر ایمان لانے کے بعد اس پر قائم رہو۔“ مسائل: 1۔ جو لوگ اقرار کریں کہ ہمارا رب ” اللہ“ ہے پھر اس پر استقامت اختیار کریں انہیں کوئی خوف و خطر اور حزن و ملال نہیں ہوگا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی توحید پر قائم رہنے والوں کا صلہ جنت ہے۔ 3۔ اللہ کی توحید کا اقرار کرنے اور تقاضے پورے کرنے والوں کو ہمیشہ ہمیش 3 میں بسایا جائے گا۔ تفسیر بالقرآن: توحید کی اہمیت اور اس کے فائدے : 1۔ توحید سب سے بڑی سچائی ہے۔ (المائدۃ: 119، النساء : 87، 132) 2۔ توحید سب سے بڑی گواہی ہے۔ (آل عمران :18) 3۔ توحید عدل ہے۔ (آل عمران :18) 4۔ توحید دانائی ہے۔ (بنی اسرائیل :39) 5۔ توحید سب سے بڑی نیکی ہے۔ (البقرۃ : ١٧٧) ٦۔ توحید فرمانبرداری کا نام ہے۔ (النحل : 48، الرعد :15) 7۔ اللہ کی توحید پر استقامت اختیار کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ انہیں خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں غم وحزن میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں تمہارے لیے جنت ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ ( حٰم السجدۃ:30)