وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ وَهَٰذَا كِتَابٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنذِرَ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَبُشْرَىٰ لِلْمُحْسِنِينَ
اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب پیشوا اور رحمت تھی اور یہ ایک تصدیق کرنے والی کتاب عربی زبان میں ہے، تاکہ ان لوگوں کو ڈرائے جنھوں نے ظلم کیا اور نیکی کرنے والوں کے لیے بشارت ہو۔
فہم القرآن: ربط کلام : پہلی آیت میں کفار سے مراد اہل مکہ اور یہودی ہیں اس لیے یہودیوں کے سامنے تورات اور قرآن مجید کی حیثیت بیان کی گئی ہے۔ یہودی مالی، سیاسی اور علمی اعتبار سے عرب پر بڑا اثرورسوخ رکھتے تھے اور یہی لوگ مکہ والوں کو اوٹ پٹانگ باتیں بتلاتے تھے۔ یہودیوں کے علمی غرور اور سیاسی تسلط کو توڑنے اور لوگوں کو ان کی حقیقت بتلانے کے لیے قرآن مجید نے موسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت اور تورات کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ نزول قرآن اور نبی آخر الزماں (ﷺ) سے پہلے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات عنایت فرمائی جو اپنے دور میں لوگوں کے لیے راہنما اور رحمت کا باعث تھی۔ اس دور میں تورات پر عمل کرنا فرض تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اب عربی زبان میں قرآن مجید نازل کیا ہے جو پہلی کتابوں بالخصوص تورات کی تائید اور تصدیق کرتا ہے اور ظالموں کے لیے انتباہ ہے اور ان لوگوں کے لیے خوشخبری ہے جو قرآن پر ایمان لانے کے ساتھ نیکی کرنے والے ہیں۔ اس سے پہلے آیت ٩ میں یہود و نصاریٰ اور کفار کے پراپیگنڈہ کا جواب دیتے ہوئے۔ آپ کی زبان اطہر سے یہ کہلوایا گیا کہ آپ لوگوں میں اعلان فرمائیں کہ میں پہلا اور انوکھا رسول نہیں ہوں۔ میں اس بات کی پیروی کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل کی جاتی ہے اور لوگوں کو کھلے الفاظ میں انتباہ کرنے والا ہوں۔ یہی قرآن مجید کی دعوت کا خلاصہ ہے کہ انکار کرنے والوں کو ڈرایا جائے اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دی جائے۔ کفار میں سے کچھ لوگ نبی (ﷺ) پر یہ بھی الزام لگاتے تھے کہ آپ فلاں عجمی سے پڑھ کر ہمیں سنا دیتے ہیں۔ اس پر یہ جواب دیا گیا کہ جس شخص کا نام لیتے ہو وہ تو عجمی ہے یعنی وہ عربی نہیں جانتا جب کہ قرآن عربی زبان میں ہے۔ اس میں عربوں کو یہ سمجھایا ہے کہ تم عربی ہو اور قرآن بھی عربی زبان میں ہے، لہٰذا اسے سمجھنے کی کوشش کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔ یہاں انجیل کا دو وجہ سے ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ پہلی آیات میں یہودیوں کی طرف اشارہ ہے اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کا حوالہ دیا گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انجیل تورات کا ہی تتمہ ہے لہٰذا تورات کے ذکر میں انجیل بھی شامل ہے۔ ﴿وَ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَ مُہَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَہْوَآءَ ہُمْ عَمَّا جَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْہَاجًا وَ لَوْ شَآء اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰکُمْ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ﴾ (المائدۃ:48) ” اور ہم نے آپ کی طرف یہ کتاب حق کے ساتھ بھیجی، اس حال میں کہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور اس پر محافظ ہے، پس ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ نے نازل کیا اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اس سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کریں تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک راستہ اور ایک طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ایک امت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں اس میں آزماتا ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے، پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو، اللہ ہی کی طرف تم سب کالوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔“ مسائل: 1۔ قرآن مجید کے نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ظالم لوگوں کو ان کے انجام سے ڈرایا جائے اور حقیقی ایمانداروں کو خوشخبری دی جائے۔ 2۔ قرآن مجید سے پہلے تورات راہنما اور باعث رحمت کتاب تھی۔ 3۔ اب لوگوں کی راہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں قرآن مجید نازل کیا ہے۔ تفسیر بالقرآن: نیکی کی جزا، برائی کی سزا : 1۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔ (الزلزال : 7تا8) 2۔ برائیوں میں مرنے والے کے لیے 3 ہے۔ (البقرۃ:71) 3۔ جو ایک نیکی کرے گا اس کو دس نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو برائی کرے گا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہوگی۔ (الانعام :160) 4۔ برائی کا بدلہ اس کی مثل ہی ہوگا۔ (القصص :84) 5۔ صبر کرنے والوں کے لیے 3 کی جزا ہے۔ (الدھر :12) 6۔ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی اس کا بدلہ 3 ہے۔ (النازعات :37) 7۔ نافرمانوں کو ہمیشہ کے عذاب کی سزادی جائے گی۔ (یونس :52) 8۔ تکبر کرنے والوں کو ذلت آمیز سزا دی جائے گی۔ (احقاف :20) 9۔ شیطان اور اس کے پیروکاروں کو 3 کی سزا دی جائے گی۔ (بنی اسرائیل :63)