وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ۚ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ
اور ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، ان لوگوں سے کہا جو ایمان لائے اگر یہ کچھ بھی بہتر ہوتا تو یہ ہم سے پہلے اس کی طرف نہ آتے اور جب انھوں نے اس سے ہدایت نہیں پائی تو ضرور کہیں گے کہ یہ پرانا جھوٹ ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : نبی (ﷺ) کی نبوت اور قرآن مجید کا انکار کرنے والے ظالموں کا ایک اور بہانہ۔ اہل مکہ کا یہ بھی پراپیگنڈہ تھا کہ اگر قرآن من جانب اللہ ہوتا اور اس دین میں خیر پائی جاتی تو ہم مسلمانوں سے سبقت لے جاتے کیونکہ ہمیں اس میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی اس لیے ہم حلقہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس بہانے کی بنیاد پر اہل مکہ ایمان لانے سے محروم ہوئے۔ اس محرومی کی بنا پر کہتے یہ تو بڑا قدیمی جھوٹ ہے۔ اس یا وہ گوئی کے ساتھ مکہ والے یہ بات بھی کہا کرتے تھے کہ اس نبی پر ایمان لانے والے سماجی اور معاشی اعتبار سے نہایت ہی کم درجہ کے لوگ ہیں۔ اہل مکہ غرور میں آکر یہ بھی کہتے تھے کہ یہ قدیمی جھوٹ ہے اور پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں اس لیے ہم قرآن مجید اور محمد (ﷺ) پر ایمان نہیں لائیں گے۔ مسائل: 1۔ نبی آخر الزماں (ﷺ) کی نبوت اور قرآن کا انکار کرنے والے سمجھتے ہیں کہ ہم اسلام اور مسلمانوں سے بہتر ہیں۔ 2۔ حقیقت کا انکار کرنے والے اپنی گمراہی کے سبب قرآن اور اس کی دعوت کو قدیمی جھوٹ قرار دیتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: قرآن اور نبی آخر الزماں (ﷺ) کے بارے میں یہود، نصاریٰ اور کفار کی یا وہ گوئی : 1۔ جب قرآن سنایا جاتا تو منافقین ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے تھے۔ (التوبہ :127) ( یونس :15) (ص :4) 2۔ منافقین قرآن مجید کے نزول کا مذاق اڑاتے اور کہتے ہیں اس سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے ؟ (التوبہ :124) 3۔ جب قرآن میں قتال کا تذکرہ ہوتا ہے تو منافق آپ کی طرف ایسے دیکھتے جیسے ان پر موت کی بیہوشی طاری ہوگئی ہو۔ (سورہ محمد :20) 4۔ جب قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے تو یہ بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ (التوبہ :86)