سورة الأحقاف - آیت 6

وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جب سب لوگ اکٹھے کیے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی عبادت سے منکر ہوں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 6 سے 7) ربط کلام : جو لوگ ” اللہ تعالیٰ“ کے سوا یا اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہیں وہ ان کے حق میں واضح دلیل نہیں رکھتے مگر اس کے باوجود اپنے باطل عقیدہ پر قائم رہتے اور جھگڑتے ہیں۔ یہ انداز اللہ تعالیٰ کے ہاں کفر کرنے کے مترادف ہے۔ ہر دور کے کفار اور مشرک اس بات کا اقرار کرتے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی خدائی میں نہ کوئی شریک تھا اور نہ ہے اور نہ ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود مشرک اور کافر۔ اللہ تعالیٰ کے سوا یا اس کے ساتھ دوسروں کو پکارتے اور ان سے مانگتے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے کوئی ایک بھی قیامت تک ان کی پکار کا جواب نہیں دے سکتا۔ یہاں تک کہ وہ ان کے پکارنے سے بھی بے خبر ہیں۔ (فاطر :14) جب قیامت کے دن ان معبودوں کو ان کے سامنے اکٹھا کیا جائے گا تو وہ اپنے عابدوں کی عبادت اور پکارنے والوں کی پکار کا انکار کریں گے۔ ان میں دو قسم کے لوگ ہوں گے۔ 1۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) اور صالح حضرات جو دنیا میں کفرو شرک کی مخالفت کرتے رہے لیکن ان کے فوت ہونے کے بعد بد عقیدہ امتیّوں، برے مقتدیوں اور مریدوں نے انہیں لوگوں کے سامنے حاجت روا مشکل کشا بنا کر پیش کیا اور ان کے بارے میں جھوٹی سچی کرامات بیان کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے رہے۔ قیامت کے دن جب انبیائے کرام (علیہ السلام) اور صالح حضرات سے ان کے نام پر کیے گئے شرک کے بارے میں پوچھا جائے گا تو وہ اپنے رب کے حضور معذرت پیش کرتے ہوئے اپنے نام پر کیے ہوئے کفر و شرک کا انکار کریں گے۔ 2۔ جو پیر اور فقیر، علماء اور بادشاہ شرک کی تبلیغ کرتے یا اس کا ماحول بناتے رہے۔” اللہ“ کا جلال اور اس کا عذاب دیکھ کر ہر قسم کے شرک کا انکار کریں گے یعنی جھوٹ بولیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور ان کی عبادت کرنے والوں کو جہنم میں پھینک دے گا اور وہ ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ ” اور جس دن ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے پھر جنھوں نے شریک بنائے، ان سے کہیں گے تم اور تمھارے شریک اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔ پھر ہم ان کے درمیان علیحدگی کردیں گے اور ان کے شریک کہیں گے تم ہماری عبادت نہیں کیا کرتے تھے؟“ (یونس :28) ﴿ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ﴾ (الانعام :23) ” پھران کا فریب اس کے سواکچھ نہ ہوگا کہ کہیں گے اللہ کی قسم! اے ہمارے رب! ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔“ ﴿اِنَّکُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ﴾ (الانبیاء :98) ” بے شک تم اور تمہارے معبود جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو جہنم کا ایندھن ہیں اور تم نے بھی جہنم میں جانا ہے۔“ مسائل: 1۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو پکارتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی گمراہ نہیں ہوسکتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو پکارا جاتا ہے وہ قیامت تک پکارنے والوں کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے۔ 3۔ جن صالح فوت شدگان کو مصیبت کے وقت بلایا جاتا ہے اور ان کے حضور فریادیں کی جاتی ہیں قیامت کے دن وہ پکارنے والوں کا انکار کریں گے۔ 4۔ جن فوت شدگان کو پکارا جاتا ہے وہ پکارنے والوں کی پکار سے بے خبر ہوتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن عابد اور معبودوں کا ایک دوسرے کا انکار کرنا : 1۔ قیامت کے دن معبود اپنی عبادت کا انکار کریں گے۔ (یونس :28) 2۔ قیامت کے دن مشرک اپنے شرکاء کو دیکھ کر کہیں گے کہ ہم ان کی عبادت کرتے تھے لیکن ان کے معبود انکار کریں گے۔ (النحل :86) 3۔ قیامت کے دن مشرک اپنے معبودوں کو دیکھ کر کہیں گے یہ ہمیں گمراہ کرنے والے تھے۔ (القصص :63) 4۔ اس دن اللہ تعالیٰ مشرکوں سے فرمائے گا میرے شریک کہاں ہیں وہ کہیں گے ہم میں سے کوئی اس کا دعویدار نہیں ہے۔ (حٰم السجدۃ:47) 5۔ قیامت کے دن پیر اپنے مریدوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ:166) 6۔ قیامت کے دن مشرکوں سے کہا جائے گا اپنے معبودوں کو پکارو لیکن ان کے معبود ان کی پکار کا کوئی جواب نہیں دیں گے۔ (الکھف :52) 7۔ 3 میں داخل ہونے والے اپنے سے پہلوں کو دیکھ کرکہیں گے۔ ہمیں گمراہ کرنے والے یہی لوگ تھے۔ الٰہی انہیں دوگنا عذاب دیا جائے۔ (الاعراف :38)