إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
اگر اللہ تمھاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں اور اگر وہ تمھارا ساتھ چھوڑ دے تو وہ کون ہے جو اس کے بعد تمھاری مدد کرے گا اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ مومن بھروسا کریں۔
فہم القرآن : ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ‘ اس میں منافقوں کے پروپیگنڈہ کا جواب دیتے ہوئے بنیادی عقیدہ سمجھایا گیا ہے کہ عزت وذلت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور مومنوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ رسول محترم (ﷺ) ہر کام کرنے سے پہلے اس پر غور و خوض اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کو عملی جامہ پہناتے تھے۔ احد میں بھی ایسا ہی کیا گیا لیکن چند ساتھیوں کی کمزوری کی وجہ سے آپ اور مسلمانوں کو مالی‘ جانی نقصان اٹھانا پڑا جس پر کمزور مسلمانوں نے غیر محتاط انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور منافقوں نے اسے ایک دوسرے انداز میں اچھالا۔ اس موقعہ پر یہ بنیادی اصول بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرنے کا فیصلہ صادر فرمائے تو ساری دنیا جمع ہو کر بھی تم پر غالب نہیں آ سکتی۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں رسوا کرنا چاہے تو تمہیں کوئی بھی عزت نہیں دے سکتا لہٰذا مسلمانوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اللہ پر توکل کا یہ معنیٰ نہیں کہ آدمی حاصل شدہ وسائل کو استعمال کرنا چھوڑ دے بلکہ توکل کا معنی ہے ہر قسم کی استعداد حاصل کرنے کی کوشش کرے اور پھر وسائل پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد اور یقین رکھے۔ انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! (أَعْقِلُھَا وَأَتَوَکَّلُ أَوْ أُطْلِقُھَا وَأَتَوَکَّلُ قَالَ اعْقِلْھَا وَتَوَکَّلْ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق] ” میں اونٹ کو باندھ کر توکل کروں یا اسے کھلا چھوڑ دوں اور توکل کروں آپ (ﷺ) نے فرمایا : اونٹ کو باندھو اور توکل کرو۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہو تو آدمی کو کوئی مغلوب نہیں کرسکتا۔ 2۔ جسے اللہ تعالیٰ ذلیل کرے اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ 3۔ اللہ ہی پر مومنوں کو ہمیشہ بھروسہ کرنا چاہیے۔ (التوبہ :129)