فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ
پس اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہی کی وجہ سے تو ان کے لیے نرم ہوگیا ہے اور اگر تو بد خلق، سخت دل ہوتا تو یقیناً وہ تیرے گرد سے منتشر ہوجاتے، سو ان سے در گزر کر اور ان کے لیے بخشش کی دعا کر اور کام میں ان سے مشورہ کر، پھر جب تو پختہ ارادہ کرلے تو اللہ پر بھروسا کر، بے شک اللہ بھروسا کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : احد میں درّہ والوں کی کوتاہی اور صحابہ کے منتشر ہونے کی وجہ سے نقصان ہوا۔ جس پر نبی کریم (ﷺ) نے صبر وحوصلہ کا مظاہرہ فرمایا۔ اس پر آپ (ﷺ) کے اخلاق عالیہ کی تعریف کی گئی اور خطا کرنے والوں کو معاف کردینے اور اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی بخشش کی دعا کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ اُحد میں تین سو منافقوں کا واپس لوٹنا، درّے والوں کا درّہ خالی کرنا‘ گھمسان کے رن میں صحابہ کی اکثریت کا آپ کو تنہا چھوڑ جانا‘ اس قدر ذاتی اور جماعتی نقصان کا اٹھانا۔ ان میں کوئی ایک معاملہ بھی نبی کریم (ﷺ) کو مشتعل کرنے کے لیے کافی تھا۔ ایسے موقعہ پر بڑے سے بڑا بہادر اور حوصلہ مند انسان کا پِتّہ پانی ہوجایا کرتا ہے۔ لیکن رسول اللہ (ﷺ) نے کسی اشتعال‘ خفگی اور ترش کلامی کا مظاہرہ نہیں فرمایا۔ بلکہ نہایت حوصلہ اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ حالات پر کنٹرول کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو خراج تحسین سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ میرے محبوب ! یہ صرف تیرے رب کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے کہ آپ بردبار‘ رحمدل‘ نرم خو اور اعلیٰ اخلاق کے پیکر ہیں۔ اگر آپ سخت خو‘ جذباتی اور ترش کلام ہوتے تو یہ لوگ نفرت کھا کر آپ سے دور بھاگ جاتے۔ لہٰذا انہیں دل سے معاف فرما دیجیے اور اپنے رب کے حضور ان کی معافی کی درخواست کیجیے۔ یہ نہیں کہ پہلے مشورہ کرنے سے نقصان ہوا ہے اور آئندہ مشورہ کرنے سے آپ احتراز کریں بلکہ مشاورت جاری رہنی چاہیے۔ مشاورت کے بعد آپ کو فرمایا گیا ہے کہ مکمل تیاری اور باہمی مشورہ کے بعد اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے وہی عزت وذلت اور فتح وشکست کا مالک ہے۔ کام کرنے کے لیے جو وسائل اور مشاورت درکار ہوں اس کے لیے بھرپور کوشش کریں اس کے بعد اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے عزم بالجزم کے ساتھ کام کا آغاز کردینا چاہیے۔ مشاورت کی اہمیت اور غرض وغایت : قرآن پاک نے قائد کو مشاورت کا حکم دیا ہے تاکہ مسلمان اجتماعی مسائل کو جماعتی انداز میں حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرز عمل کے بیک وقت کئی فوائد ہیں ایک طرف اراکین جماعت کی دلجوئی ہے اور دوسری جانب ان کی صلاحیتوں سے اجتماعی فائدہ اٹھانا اور ان کی انفرادی فکر کو اجتماعی نظم میں لانا ہے۔ یہ خیرو برکت سے بھرپور عمل ہے جس سے نبی اکرم (ﷺ) کی ذات والا صفات کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔ حالانکہ آپ مسلسل اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور ہدایات میں زندگی گزارتے ہوئے لوگوں کی راہنمائی فرمارہے تھے۔ نبی اکرم (ﷺ) ان احکامات کے نزول سے قبل بھی صحابہ (رض) سے مشورہ کرتے تھے لیکن نزول حکم کے بعد یہ حالت ہوگئی کہ آپ ہر کام میں صحابہ سے مشورہ فرماتے تھے۔ آپ کی ذات گرامی کو مزید حکم ہوا : ﴿ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ﴾ [ آل عمران :159] ” اور معاملات میں ان کو شریک مشورہ رکھا کرو، پھر جب آپ کا عزم کسی رائے پر پختہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں“۔ اس کار خیر کی اہمیت وافادیت کو اجاگر اور ممتاز رکھنے کے لیے پانچ رکوع پر مشتمل ایک سورۃ کا نام ہی الشورٰی رکھ دیا گیا تاکہ رہتی دنیا تک مسلمان مشاورت کے اصولوں کو اپناتے ہوئے اجتماعی زندگی بسر کرتے رہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مشورہ کن امور میں کرنا چاہیے؟ مشاورت کا حدود اربعہ کیا ہے ؟ جہاد کے سلسلے میں بدر، احد، خندق غرضیکہ ہر اہم معاملہ میں آپ (ﷺ) صحابہ کرام (رض) سے مشورہ فرماتے۔ جنگ سے پہلے شورٰی کے اجلاس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ جہاد کرنا چاہیے یا نہیں۔ واضح احکامات کے بعد ان پر عمل کرنے کے بارے میں مشورہ کرناتو درکنار ان کے بارے میں سوچنا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ مشاورت تو اس بات پر کرنا ہے کہ دشمن پر حملہ کرنے کا وقت اور طریقہ کار اور میدان جنگ کا انتخاب وغیرہ۔ ان امور کو اللہ تعالیٰ نے امت کے ذمہ داران پر چھوڑ دیا ہے۔ بعض لوگوں نے لفظی موشگافیوں میں پڑ کر مشاورت کے حکم کو بازیچۂ اطفال بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جماعت کا امیر اربابِ حل و عقد سے ان کی دلجوئی کی خاطر مشورہ کرے گا لیکن اس پر عمل کرنے کا پابند نہیں۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ امیر جس سے چاہے مشورہ کرے وہ باضابطہ شور یٰ کو تشکیل دینے اور اس کا پابند نہیں ہونا چاہیے۔ رسول کریم (ﷺ) کی صحابہ کرام (رض) سے مشاور ت : بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ : رسول اللہ (ﷺ) نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے تجویز پیش کی کہ انہیں فدیہ لے کر چھوڑ دینا چاہیے جبکہ حضرت عمر (رض) کا خیال تھا کہ انہیں قتل کردینا چاہیے۔ نبی محترم (ﷺ) نے حضرت ابوبکر (رض) کی رائے کو ترجیح دی اور بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کردیا۔ حنین کے قیدیوں کے بارے میں رائے طلب کرنا : غزوۂ حنین کے موقعہ پر بے شمار قیدی اور مال غنیمت ہاتھ آیا۔ حنین کے نمائندہ لوگوں نے جب آپ سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو آپ نے اس بارے میں صحابہ سے رائے طلب کی آراء میں اختلاف دیکھا تو حکم دیا کہ اپنے خیموں میں جا کر باہمی مشاورت کے بعد اپنے نمائندوں کو میرے ہاں بھیجو تاکہ مجھے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوجائے۔ [ رواہ البخاری : کتاب الایمان] اُحد میں دفاع کے متعلق مشاور ت : احد سے پہلے مشاورت کی کہ شہر میں رہ کر دفاع کرنا چاہیے یا مدینہ سے باہر نکل کر؟ لوگوں کی اکثریت نے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ دیا تو رسول اللہ (ﷺ) نے ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے احد کے دامن کا انتخاب فرمایا حالانکہ آپ کی رائے مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کے بارے میں تھی۔ (ابن کثیر) گورنر کی تقرری کے لیے مشاور ت : حضرت معاذبن جبل (رض) کو یمن کا گورنر بناتے وقت شورٰی بلائی گئی۔ ارکان شوریٰ نے اپنی اپنی رائے پیش کی اور کافی غوروخوض کے بعد معاذبن جبل (رض) کی تقرری کا اعلان ہوا۔ [ کنزالعمال] حضرت ابوبکر (رض) کی مشاورت اور فیصلوں کی بنیاد : جمہوریت کی مخالفت میں بعض لوگ حضرت ابوبکر (رض) کے فیصلوں کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے صحابہ سے مشورہ کیا لیکن اکثریت کی رائے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ لہٰذا خلیفہ اکثریت کی رائے کا پابند نہیں۔ حالانکہ ان واقعات سے ایسے استدلال کی گنجائش نہیں نکلتی کیونکہ حضرت ابوبکر (رض) نے صحابہ کی رائے کے مقابلے میں رسول محترم (ﷺ) کی سنت اور فرمان پیش کیے تھے جو آپ کی وفات کے صدمہ اور پے درپے مشکلات کی وجہ سے صحابہ کے ذہن سے اوجھل ہوچکے تھے۔ جوں ہی خلیفۃ المسلمین نے ان کا حوالہ دیا تو صحابہ کرام (رض) اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے۔ خلیفۂ اول کا پہلا اقدام : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) کی وفات کے بعد عرب قبائل مرتد ہونے لگے اور کچھ قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔ ادھر لشکر اسامہ کی روانگی کا مسئلہ بھی تھا جسے خود نبی اکرم (ﷺ) نے اپنی حیات مبارکہ میں روانہ کیا تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر حضرت ابوبکر (رض) نے پہلے جیش اسامہ کی روانگی کے متعلق مشورہ کیا تو نازک حالات میں شوریٰ فوری طور پر لشکر کی روانگی کے خلاف تھی لیکن حضرت ابو بکر (رض) نے فرمایا : (وَالَّذِیْ نَفْسُ اَبِیْ بَکْرٍ بِیَدِہٖ لَوْ ظَنَنْتُ اَنَّ السِّبَاعَ تَخْطَفِیْ لَاَنْفَذْتُ بَعْثَ اُسَامَۃَ کَمَا اَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) وَلَوْ لَا یَبْقَ فِی الْقُرٰی غَیرُہُ لَاَنْفَذْتُہُ) [ طبری : ج 2، ص522] ” اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں ابوبکر کی جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ وحشی جانور مجھے نوچ لیں گے اور ان آبادیوں میں میرے سوا کوئی بھی شخص باقی نہ رہے۔ تو بھی میں لشکر اسامہ روانہ کروں گا کیونکہ نبی اکرم (ﷺ) نے اس کو روانگی کا حکم دیا ہے۔“ مانعین زکوٰۃ اور حضرت ابوبکر (رض) کا فیصلہ : مانعین زکوٰۃ کے متعلق حضرت ابو بکر (رض) نے مہاجرین وانصار کو جمع کر کے فرمایا آپ کو معلوم ہے کہ بعض عربوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے مشورہ دیں کہ اس صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ کیونکہ میں بھی تم میں سے ایک انسان ہوں البتہ تمہاری نسبت مجھ پر بوجھ زیادہ ہے۔ حضرت عمر (رض) نے کہا اے خلیفۂ رسول! میری رائے تو یہ ہے کہ آپ اس وقت لوگوں کی نماز ادائیگی کو ہی غنیمت سمجھیں اور زکوٰۃ چھوڑنے پر گرفت نہ فرمائیں۔ یہ لوگ ابھی ابھی اسلام میں داخل ہوئے ہیں آہستہ آہستہ یہ تمام اسلامی فرائض واحکام کو تسلیم کرنے کے بعد سچے مسلمان بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اسلام کو مزید قوت دے گا تو ہم منکرین زکوٰۃ کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوں گے لیکن اس وقت ہم میں عرب وعجم کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔ حضرت عمر (رض) کی رائے سننے کے بعد حضرت ابوبکر (رض)، حضرت عثمان (رض) کی طرف متوجہ ہوئے انہوں نے بھی حضرت عمر (رض) کی تائید کی۔ پھر حضرت علی (رض) نے بھی اس کی تائید کی۔ ان کے بعد تمام انصار ومہاجرین اسی رائے کی تائید میں یک زبان ہوگئے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر (رض) منبر پر چڑھے اور فرمایا : اسی موقع پر انہوں نے حضرت عمر فاروق (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم کفر میں بڑے تندو تیز اور بہادر تھے، کیا اسلام میں آکر بزدل ہوگئے ہو؟ میں ضرور ان لوگوں کے خلاف جہاد کروں گا جو نماز ادا کرتے ہیں مگر زکوٰۃ دینے سے انکاری ہیں۔ (وَاللّٰہِ لَا اَبْرَحُ اَقُومُ بِاَمْرِاللّٰہِ وَاُجَاھِدُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْجِزَاللّٰہُ تَعَالٰی وَیَفِیَ لَنَا عَھْدَہُ) ” اللہ کی قسم ! میں اس موقف پر ڈٹ جاؤں گا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتا رہوں گا۔ جب تک اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا نہ فرمادے۔“ دور فاروقی میں کمانڈر‘ مفتوحہ علاقوں اور طاعون کے بارے میں مشاور ت : عراق میں پیش قدمی کے سلسلہ میں اسلامی فوج کی کمان کا مسئلہ پیش آیا۔ یاد رہے اس وقت عراق، فارس (ایران) کے ماتحت تھا خلیفہ ثانی فاروق اعظم (رض) کا خیال تھا کہ اس فوج کی کمان مجھے خود کرنا چاہیے لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) اور دوسرے جلیل القدر صحابہ (رض) کی رائے یہ تھی کہ آپ مدینہ طیبہ میں رہ کر ہدایات جاری فرماتے رہیں۔ خدانخواستہ اگر فوج کو ہزیمت اٹھانی پڑی یا آپ کو کچھ ہوگیا تو اس نقصان کی تلافی مشکل ہوجائے گی۔ اس صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے امیر المؤمنین نے فرمایا کہ میں تو عراق جانے کے لیے ہی مدینہ سے نکلا تھا مگر اصحاب رسول کی رائے اس کے برعکس ہے۔ اب بتائیں کہ اس فوج کی کمان کس کے سپرد کی جائے؟ لوگوں کی اکثریت نے حضرت سعدبن ابی وقاص (رض) کا نام پیش کیا کیونکہ ابو عبیدہ (رض) اور حضرت خالد (رض) شام کے محاذ پر بر سر پیکار تھے۔ (سیرت الفاروق) مفتوحہ علاقے : حضرت عمر فاروق (رض) خلیفۂ اول اور نبی کریم (ﷺ) کی سنت مبارکہ کی اتباع کرتے ہوئے ہر معاملہ میں اہل الرائے سے مشورہ لیتے یہاں تک کہ مفتوحہ علاقوں کی زمین کے لیے بھی انہوں نے کئی دن تک مجلس مشاورت کے اجلاس منعقد کئے۔ حضرت بلال (رض)، عبدالرحمن بن عوف (رض) اور کئی صحابہ کی رائے یہ تھی کہ یہ زمینیں مجاہدین میں تقسیم ہونا چاہییں۔ حضرت عمر (رض) اور ان کے ہم خیال حضرات کی رائے یہ تھی کہ زمینیں حکومت کی ملکیت ہونا چاہییں تاکہ آنے والے حضرات بھی اس سے مستفید ہوتے رہیں۔ اس ضمن میں دونوں طرف سے کوئی واضح شرعی دلیل نہ تھی۔ بالآخر حضرت عمر فاروق (رض) نے قرآن پاک کی آیت تلاوت کی : ﴿وَالَّذِیْنَ جَاءُ وْا مِنْ بَعْدِھِمْ۔۔﴾ پڑھ کر فرمایا : (فَکَانَتْ ھٰذِہٖ عَامَۃُ ٗ مَنْ جَآءَ مِنْ بَعْدِھِمْ فَقَدْصَادَ ھٰذَا اَلْفَیْ بَیْنَ ھٰؤُلآءِ جَمِیْعاً فَکَیْفَ تَقْسِمُہٗ لِھٰؤُلَآءِ وَنَدَعُ مَنْ تَخَلَّفَ بَعْدَھُمْ) [ الفاروق] ” یہ آئندہ آنے والے تمام لوگوں کے لیے ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں موجودہ لوگوں کو تقسیم کردوں۔ ان لوگوں کو محروم کردوں جو ان کے بعد آنے والے ہیں۔“ طاعون اور مجلس شوریٰ : ” عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) ملک شام کے دورے کے لیے نکلے جب آپ سرغ کے مقام پر پہنچے تو وہاں شام کے کمانڈر ابو عبیدہ بن جراح (رض) اور دوسرے اعلیٰ حکام نے ان کا استقبال کیا اور وہاں کے حالات بیان کرتے ہوئے عرض کرنے لگے کہ شام میں طاعون کا مرض پھیلا ہوا ہے۔ اس لیے مسئلہ پیدا ہوا کہ آگے جانا چاہیے یا واپس پلٹ جائیں۔ عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مجھے امیر المؤمنین نے حکم دیا کہ مہاجرین کو بلاؤ۔ جب وہ آئے تو ان سے اس صورت حال پر مشورہ طلب کیا گیا۔ ان کی آراء میں اختلاف تھا۔ کچھ نے کہا کہ آپ دینی کام کے لیے نکلے ہیں آپ کو واپس نہیں جانا چاہیے جبکہ دوسرے اصحاب کہتے تھے آپ کے ساتھ بہت سے اصحاب رسول ہیں خواہ مخواہ موت کو دعوت نہیں دینا چاہیے۔ پھر حضرت عمر (رض) نے فرمایا انصار کو بلایا جائے انہوں نے بھی مہاجرین کی طرح مختلف تجاویز پیش کیں۔ فاروق اعظم (رض) نے فرمایا کہ آپ یہاں سے چلے جائیں۔ پھر حکم دیا قریش کے ان سرداروں کو بلایا جائے جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے ہجرت کی تھی۔ یہ سب بالاتفاق کہنے لگے کہ آپ کو آگے جانے کی بجائے واپس پلٹ جانا چاہیے۔۔ تب امیر المؤمنین (رض) نے اعلان فرمایا کہ ہم صبح مدینہ واپس جارہے ہیں، یہ سنتے ہی ابو عبیدہ بن جراح (رض) آگے بڑھ کر کہنے لگے کہ آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہیں۔ حضرت عمر (رض) فرمانے لگے کاش یہ بات ابو عبیدہ کے سوا کوئی اور کہتا! کیونکہ یہ بات ابو عبیدہ (رض) کی دانشمندی کے خلاف تھی۔ آپ نے جواب دیا کہ ہاں میں اللہ کی تقدیر سے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف جار ہا ہوں۔ عبدالرحمن بن عوف (رض) جو کسی مصروفیت کی وجہ سے غیر حاضر تھے تشریف لائے اور کہنے لگے ایسی صورت حال کے بارے میں نبی اکرم (ﷺ) کا فیصلہ کن ارشاد موجود ہے۔ (سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ إِذَا سَمِعْتُمْ بِہٖ بِأَرْضٍ فَلَا تَقْدَمُوْا عَلَیْہِ وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِھَا فَلَاتَخْرُجُوْا فِرَارًا مِّنْہُ قَالَ فَحَمِدَ اللّٰہَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ثُمَّ انْصَرَفَ) [ رواہ مسلم : کتاب السلام، باب الطاعون والطیرۃ والکھانۃ ونحوھا] ” میں نے نبی محترم (ﷺ) سے سنا ہے کہ جب کسی علاقے میں طاعون پھیلا ہوا ہو تو وہاں داخل نہیں ہونا چاہیے اور جس زمین میں طاعون واقع ہوجائے وہاں سے بھاگنا نہیں چاہیے۔ یہ سن کر امیر المومنین (رض) نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مدینہ واپس تشریف لے گئے۔“ فیصلہ کا طریقہ کار اور ﴿فَاِذَا عَزَمْتَ﴾ کا مفہوم : آدمی جب اپنے ذہن میں ایک بات بٹھا اور جما لیتا ہے تو پھر ہر بات کو اسی زاویہ نگاہ سے دیکھتا اور پرکھتا ہے۔ یہی حالت ان دوستوں کی ہے جو علمی دنیا میں تنہا پرواز کے قائل اور انتہا پسندی کی روش کو اختیار کیے رکھتے ہیں۔ پہلے ان کی سر توڑ کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح ثابت کیا جائے کہ اکثریت کی کوئی حیثیت نہیں۔ انہیں لفظ اکثریت سے اس حد تک چڑ ہوتی ہے کہ وہ اہل حق کی اکثریت کو بدنام زمانہ جمہوریت سے مماثل قرار دے کر حقائق کو رد کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں اور جذباتی لوگوں کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا ہم کسی کے مقلد ہیں؟ حالانکہ قرآن وسنت کے بعد خاص کر تنظیمی اور اجتماعی معاملات میں اجتماعیت کو قابل قدر حیثیت دینا ضروری ہے۔ کیونکہ اجتماعی زندگی کا نظام چلانے کے لیے یہ آخری اصول ہے۔ اس کے بغیر امت کو متحد رکھنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ اس کے باوجود کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ امیر صرف لوگوں کی دلجوئی کی خاطر پیش آمدہ مسئلہ میں شوریٰ کی تجاویز سے فائدہ اٹھانا چاہے تو اس کی ذرہ نوازی ہے ورنہ کوئی اصول امیر کو پابند نہیں کرسکتا۔ پھر ان کا یہ بھی فرمان ہے کہ اس طرح تو امیر مامور اور ربڑ کی مہر بن جاتا ہے۔ بقول ان کے قرآن پاک نے ﴿فَاِذَا عَزَمْتَ﴾ کے الفاظ استعمال کر کے امیر کو اجتماعی معاملات میں مختار کل بنا دیا ہے۔ کاش یہ حضرات طبیعت کے بے لگام گھوڑے کو قابو رکھتے ہوئے اس بات پر غور کرتے کہ ارکان شوریٰ مشورہ دینے کے لیے تشریف لائے ہیں نہ کہ مشورہ لینے کے لیے۔ صاحب امر کو تو مشورہ لینے کا حکم ہو رہا ہے لہٰذا یہاں صیغہ بھی واحد حاضر کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر اراکین شوریٰ کو ایک دوسرے سے مشورہ لینے کے لیے اکٹھا کیا جاتا تو پھر ﴿شَاوِرْ ھُمْ فیْ الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ﴾ کے بجائے یہ ہونا چاہیے تھا ” تَشَاوَرُوْا فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتُمْ فَتَوَکَّلُوْا عَلَی اللّٰہِ یَتَشَاوَرُوْنَ فِی الْاَمْرِ فَاِذَاعَزَمُوْا“ اس لیے صحیح نقطہ نگاہ یہ ہے کہ عزم کا معنٰی وہ نہیں جو کچھ علماء نے سمجھا ہے۔ ایسے ہی آزاد استدلال کی وجہ سے مسلمانوں کے حکمران آمر، ڈکٹیٹر، ظالم اور سفاک ثابت ہوئے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اللہ کے علاوہ ہم سے پوچھنے کا کسی کو اختیار نہیں اور نہ ہی ہم کسی کے پابند ہیں۔ مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں قابل عمل نقطۂ نگاہ یہی ہے کہ امیر قرآن وسنت، واضح شواہد وقرائن اور شوریٰ کی اکثریت کا پابند ہونا چاہیے۔ اس طرز عمل میں نہ صرف ملک وملت کی بہتری ہے بلکہ امیر کے لیے بھی عافیت کا راستہ ہے کیونکہ وہ اکیلا ذمہ دار ہونے کی بجائے پوری جماعت ذمہ دار ہوگی اور قرآن وسنت اور صحابہ کا عمل بھی اس بات کی مکمل رہنمائی کر رہا ہے۔ اب ﴿فَاِذَا عَزَمْتَ﴾ کا معنٰی نبی اکرم (ﷺ) کی ذات گرامی اور صحابہ کرام (رض) کے طرز حیات سے سمجھنے کی کوشش فرمائیں۔ (عَنْ عَلِیٍّ قَالَ سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) عَنِ الْعَزْمِ فَقَالَ مُشَاوَرَۃُ اَھْلِ الرَّاْیِ ثُمَّ اتِّبَاعُھُمْ) [ ابن کثیر] ” حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (ﷺ) سے عزم کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے عزم کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عزم کے معنٰی ہیں اہل رائے سے مشورہ لینا اور پھر اس کا اتباع کرنا۔“ اس آیت کی روشنی میں امام ابو بکر جصاص (رح) لکھتے ہیں : (وَغَیْرُ جَائِزٍ اَنْ یَّکُوْنَ الْاَمْرُ بالْمُشَاوَرَۃِ عَلٰی جِھَۃٍ تَطِیْبُ نَفُوْسُھُمْ وَرَفْعِ اَقْدَارِھِمْ وَلِتَقْتَدِی الْاُمَّۃُ بِہٖ فِی مِثْلِہٖ لِاَنَّہُ لَوْ کَانَ مَعْلُوْمًا عِنْدَھُمْ إِنَّھُمْ إِذَا اسْتَغْرَغُوْا مَجْھُوْدُھُمْ فِی اِسْتِنْبَاطِ مَاشُوْرٍ وَافِیۃٌ وَصَوَابُ الَّذِیْ فیہ ْمَا سَلُوْا عَنْہُ ثُمَّ لَمْ یَکُنْ ذَالِکَ مَعْمُوْلًا عَلَیْہِ وَلَا مُلْتَقِیْ مِنْہُ بالْقَبُوْلِ بِوَجْہٍ لَمْ یَکُنْ فِی ذٰلِکَ تَطِیْبُ نَفُوْسُھُمْ وَلَا رَفْعُ لِاَقْدَارِ ھِمْ بَلْ فِیہِ اِیْحَاشُھُمْ وَاَعْلَامُھُمْ بِاَنَّ آرَاءَ ھُمْ غَیْرَ مَقْبُوْلَۃٍ وَلَا مَعْمُوْلَ عَلَیْھَا فَھَذَا تَاوِیْلٌ سَاقِطٌ مَعْنًی لَہُ) [ احکام القرآن] ” نبی اکرم (ﷺ) کو مشورہ لینے کا جو حکم دیا گیا وہ صرف صحابہ کی دلجوئی اور عزت افزائی کے لیے نہیں تھا۔ اگر صحابہ کرام (رض) کو یہ معلوم ہوتا کہ کسی خاص معاملے میں مشورہ طلب کیا جارہا ہے اور وہ مکمل غوروخوض کے ساتھ پیش آمدہ مسئلے میں ٹھیک ٹھیک مشورہ اور رائے کا اظہار کریں گے تو بھی اسے قبول نہیں کیا جائے گا اس طرح تو ان کی دلجوئی اور عزت افزائی کی صورت نہیں نکلتی بلکہ اس میں ان کی حوصلہ شکنی کا پہلو نکلتا ہے۔“ اگر تعصب کی عینک اتار کر اور جذبات کے پردے ہٹا کر نبی اکرم (ﷺ) اور خلفائے راشدین (رض) کے مبارک دور میں ہونے والی مجالس شوریٰ کے فیصلوں پر غور کیا جائے تو روز روشن کی طرح یہ حقیقت چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے لشکر اسامہ (رض) کی روانگی کا فیصلہ کرتے ہوئے اگر اکثریت کی رائے کو مسترد کیا تو اس کے پیچھے نص قطعی یعنی نبی اکرم (ﷺ) کا حکم موجود تھا۔ مانعین زکوٰۃ کے بارے میں بھی قرآن پاک کی نص قطعی موجود تھی جو حالات کی بحرانی کیفیت کی وجہ سے صحابہ (ﷺ) کے ذہن سے اوجھل ہوچکی تھی۔ جب خلیفۂ وقت نے توجہ دلائی تو صحابہ کے دل ودماغ روشن ہوگئے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں صحیح فیصلہ : 1۔ قرآن وسنت کی موجودگی میں کثرت وقلت اور عقل وفکر کی کوئی حیثیت نہیں۔ 2۔ ٹھوس فکری، نظری، دلائل اور واضح قرائن کے بعد جمہوریت کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ 3۔ دونوں طرف دلائل برابر ہوں تو اجتماعی زندگی میں اہل حق کی اکثریت کی اتباع امیر اور سب کے لیے لازم ہے۔ مسائل : 1۔ نبی کریم (ﷺ) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بڑے نرم خو اور خلیق تھے۔ 2۔ سر براہ بد اخلاق ہو تو لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں۔ 3۔ سربراہ کو قومی کاموں میں لوگوں سے مشورہ کرنا چاہیے۔ 4۔ مشورہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا لازم ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : داعی اور قائد کے اوصاف : 1۔ داعی اور قائد کو ہمدرد ہونا چاہیے۔ (التوبۃ:128) 2۔ داعی کو لوگوں سے مشورہ کا خواہش مند ہونا چاہیے۔ (یوسف :103) 3۔ لوگوں کی خیر خواہی کے لیے جان قربان کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔ (الکہف :6) 4۔ قائد کو مشورہ لینا چاہیے۔ (آل عمران :159) 5۔ قائد میں عفو ودرگزر کا جذبہ ہونا چاہیے۔ (المائدۃ:13) 6۔ قائد اور مومنین کو اللہ پر توکل کرنا چاہیے۔ (الزمر : 38‘ التوبۃ:51) نوٹ : مزید ’ ’ البقرہ 247“ کی تفسیرملاحظہ فرمائیں۔