أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
یا وہ لوگ جنھوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا، انھوں نے گمان کرلیا ہے کہ ہم انھیں ان لوگوں کی طرح کردیں گے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے؟ ان کا جینا اور ان کا مرنا برابر ہوگا ؟ برا ہے جو وہ فیصلہ کر رہے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 21 سے 22) ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے انسان کی راہنمائی کے لیے شریعت نازل فرمائی ہے لیکن اس کے باوجود لوگ اپنی ضد اور جہالت پر قائم رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ حقیقت کھول کر بیان فرمائی ہے کہ نیک اور برے لوگ کسی اعتبار سے برابر نہیں ہوسکتے۔ مگر اس کے باوجود ظالم لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر قسم کی فراوانی اس لیے دے رکھی ہے کہ وہ ہمیں پسند کرتا ہے اور ہمارے مقابلے میں نیک لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایسے لوگوں میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ ہم آخرت میں بھی ایمانداروں سے بہتر ہوں گے۔ ایسے لوگوں کو انتباہ کے انداز میں سمجھایا گیا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایماندار اور صالح کردار لوگوں کی زندگی اور موت کو مجرم لوگوں کی زندگی اور موت جیسی کردے۔ مجرم جو کچھ سوچتے اور کہتے ہیں وہ ہر اعتبار سے ان کے لیے برا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کے حوالے سے بتلایا ہے کہ مومن اور ظالم برابر نہیں ہوسکتے۔ جہاں تک دنیا کی زندگی کا معاملہ ہے بظاہر دنیا دار لوگ مومنوں سے برتر ہوتے ہیں۔ لیکن گہرائی سے دیکھا اور سوچا جائے تو دنیا میں بھی ایک مومن اور ظالم کی زندگی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بے شک مومن غریب ہو مگر اس کا دل مطمئن ہوتا ہے۔ جس وجہ سے وسائل کی کمی کے باوجود وہ پرسکون زندگی گزارتا ہے۔ مومن کے مقابلے میں فاسق شخص وسائل کی فراوانی کے باوجود پریشانی اور بے سکونی کا شکار رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو پرسکون رکھنے کے لیے ہر قسم کی برائی اور بے حیائی کرتے ہیں۔ کئی لوگ سکون نہ پانے کی وجہ سے خودکشی کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ جہاں تک موت کا تعلق ہے بے شک مرنے والا موت کی کیفیت سے دوسروں کو آگاہ نہیں کرسکتا۔ لیکن ایک مومن اور فاسق کی موت میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ جس کا ہم تصور نہیں کرسکتے۔ اسی لیے قرآن مجید نے دوسرے مقام پریوں ارشاد فرمایا ہے۔ ﴿اَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا لَا یَسْتَوٗنَ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰی نُزُلًا بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰھُمُ النَّارُ کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْھَآ اُعِیْدُوْا فِیْھَا وَ قِیْلَ لَھُمْ ذُوْقُوْا عَذَاب النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ﴾ [ السجدۃ: 18تا25] ” بھلا یہ ہوسکتا ہے کہ جو شخص مومن ہے وہ اس شخص کی طرح ہوجائے جو فاسق ہے یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ان کے اعمال کے بدلے۔ ان کی ضیافت کے لیے جنتوں کی قیام گاہیں ہیں اور جنہوں نے نافرمانی اختیار کی ہے ان کا ٹھکانا آگ ہے، جب اس سے نکلنا چاہیں گے اسی میں دھکیل دیے جائیں گے، اور ان سے کہا جائے گا کہ اب آگ کے عذاب کا مزا چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔“ اس فرق کو یہ کہہ کر واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانوں کو بامقصد پیدا کیا ہے۔ تاکہ ہر شخص اپنے اعمال کے مطابق بدلہ پائے اور کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اس فرمان میں استعارے کی زبان سے بتلایا گیا ہے کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد برے اعمال کی ہمیں کوئی باز پرس نہیں ہوگی کہ وہ شعوری اور غیر شعوری طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا نظام یوں ہی بنادیا ہے۔ انسان کی زندگی لیل ونہار کی گردش سے منسلک ہے۔ اس لیے زمین و آسمان کا نام لے کر بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بامقصد پیدا کیا ہے۔ یعنی انسان کی زندگی کا ایک مقصد ہے جس وجہ سے ہر کسی کو اپنے اعمال کا بدلہ پانا ہے۔ ” حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب کافر کا دنیا سے رخصت ہونے اور موت کا وقت آتا ہے تو آسمان سے کالے چہروں والے فرشتے اترتے ہیں۔ ان کے پاس کھردرا لباس ہوتا ہے۔ وہ فوت ہونے والے کافر سے حد نگاہ تک دور بیٹھ جاتے ہیں۔ ملک الموت اس کے سرہانے آکر کہتا ہے۔ اے خبیث جان! اللہ کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کر پھر روح اس کے جسم سے الگ ہوجاتی ہے۔ اسے اس طرح کھینچتے ہیں جیسے گرم سلاخ کو روئی سے کھینچا جاتا ہے۔ اس روح کو فرشتے پکڑتے ہیں اور کوئی فرشتہ اسے اپنے ہاتھ میں آنکھ جھپکنے سے زیادہ اپنے ہاتھ میں نہیں رہنے دیتا اور اسے بدبودار ٹاٹ میں لپیٹ دیتے ہیں۔ اس سے مردار جیسی گندی بدبو نکلتی ہے جس طرح کی بدبو تم زمین پر مردار کی طرح محسوس کرتے ہو۔ وہ اسے لیکر آسمانوں کی طرف جاتے ہیں ان کا گذر جس فرشتے کے پاس ہوتا تو وہ کہتا ہے یہ کس کی خبیث روح ہے لیکن وہ جواب دیتے ہیں وہ فلاں ابن فلاں ہے اس کے برے برے نام لیتے ہیں جن کے ساتھ اسے دنیا میں پکارا جاتا تھا حتیٰ کہ اسے آسمان دنیا کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ اس کے لیے دروازہ کھولنے کے لیے کہا جاتا ہے لیکن دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت پڑھی ( ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ ہی وہ جنت میں داخل ہو سکیں گے حتی کہ اونٹ کو سوئی کے سوراخ میں داخل کردیں) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا اعمال نامہ سجین میں لکھ دو جو زمین کی سب سے نچلی وادی ہے اس کی روح کو پھینکا جائے گا پھر آپ (ﷺ) نے یہ آیت تلاوت کی (اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گرگیا پرندے اسے اچک رہے ہیں یا ہوا نے اس کو دور جگہ پھینک دیا) “ [ رواہ احمد : مسند براء بن عازب] مسائل: 1۔ برے لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مومن اور فاسق کو برابر رکھے گا ایسے لوگوں کی سوچ اور دعویٰ غلط ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے مومن اور فاسق کی موت اور زندگی میں نمایاں فرق رکھا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو بامقصدپیدا کیا ہے۔ 4۔ ہر انسان کو اپنے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ 5۔ قیامت کے دن کسی پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ تفسیر بالقرآن: مومن اور کافر کی موت کا فرق اور انجام : 1۔ فرشتے مومن کی روح قبض کرتے وقت سلام کہتے ہیں۔ (النحل :32) 2۔ کفار کی روح قبض کرتے وقت فرشتے ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہیں۔ (الانفال :50) 3۔ کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ (البقرۃ:39) 4۔ ایمان لانے والے اور نیک عمل کرنے والے جنت میں جائیں گے۔ (البقرۃ:82) 5۔ موت کے وقت فرشتے فاسق کو کہتے ہیں کہ آج تجھے عذاب دیا جائے گا۔ (الانعام :93)