وَيْلٌ لِّكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ
بڑی ہلاکت ہے ہر سخت جھوٹے، گناہ گار کے لیے۔
فہم القرآن: (آیت 7 سے11) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی عظیم نشانیاں دیکھنے اور اس کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے باوجود جھوٹا اور متکبر آدمی اپنے رب کو اس کے حکم کے مطابق ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ایسے شخص کا انجام بدترین ہوگا۔ جو آدمی توحید ورسالت کو جھٹلانے اور تکبر کا راستہ اختیار کرلیتا ہے اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب بھی اسے اللہ کی توحید کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ انہیں سننے کے باوجود ایسا رویہ اختیار کرتا ہے گویا کہ اس نے اپنے رب کی آیات کو سنا ہی نہیں۔ اگر کسی وقت توجہ سے سن لیتا ہے تو ایمان لانے کی بجائے انہیں مذاق کرتا ہے۔ اس کے بارے میں ارشاد ہواکہ اس کو اذیت ناک عذاب کی خوشخبری سنائیں۔ جو اذیّت ناک ہونے کے ساتھ اپنے آپ میں ہر قسم کی ذلت بھی لیے ہوئے ہوگا۔ قرآن مجید ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو ہدایت قبول کرنے کے لیے سنتے ہیں۔ جو قرآن مجید کو ہدایت کے لیے نہیں بلکہ اس کا مقابلہ کرنے یا اس کا جواب دینے کے لیے سنتا ہے اسے سخت ترین عذاب دیا جائے گا۔ تکبر کے بارے میں پہلے بھی عرض کیا جاچکا ہے کہ اس کا معنٰی ہے لوگوں سے منہ پھیرنا اور حق بات کا انکار کرنا۔ ظاہر بات ہے کہ جس میں یہ عیب پائے جائیں گے اس کا صراط مستقیم کی طرف آنا ناممکن ہوگا۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی آیات کو مذاق کا نشانہ بنانے کا تعلق ہے اس کی کئی صورتیں ہیں۔ جو لوگ کسی حد تک خوف خدا رکھتے ہیں۔ وہ براہ راست آیات ربانی کو مذاق کرنے کی بجائے علماءِ حق کو مذاق کانشانہ بناتے ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں سے اللہ کا خوف اٹھ جاتا ہے وہ اللہ کی آیات بالخصوص اسلامی قوانین کو ناقابل عمل قرار دیتے ہیں۔ کچھ اتنے بے خوف ہوتے ہیں کہ وہ حدود اللہ کو وحشیانہ سزائیں قرار دیتے ہیں۔ درحقیقت یہ مذاق اور انکار کرنے کی مختلف صورتیں ہیں جن کے انداز اور الفاظ حالات کے مطابق بدلے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دنیا میں کوئی نہ کوئی حمایت کرنے والا ہوتا ہے لیکن آخرت میں ان کی کوئی بھی مدد نہیں کر پائے گا۔ جنہوں نے اپنے رب کی ہدایت کا انکار کیا ان کو ذلت ناک عذاب دیا جائے گا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ، فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیثِ، وَلاَ تَحَسَّسُوا، وَلاَ تَجَسَّسُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَلاَ تَبَاغَضُوا، وَکُونُوا عِبَاد اللَّہِ إِخْوَانًا ) [ رواہ البخاری : باب مَا یُنْہَی عَنِ التَّحَاسُدِ وَالتَّدَابُرِ] حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا بد گمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ کسی کی عیب جوئی، جاسوسی اور حسد نہ کرو، نہ پیٹھ پیچھے باتیں کرو‘ نہ ہی دشمنی کرو۔ اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن کر رہو۔“ (عَنْ أُمِ مَعْبَدٍ (رض) قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ اَللّٰہُمَّ طَہِّرْ قَلْبِیْ مِنَ النِّفَاِقِ وَعمَلِیْ مِنَ الرِّیَاءِ وَلِسَانِیْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِیْ مِنَ الْخِیَانَۃَ فَإِنَّکَ تَعْلَمْ خَائِنَۃَ الْأَعَیْنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرِ)[ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر] ” حضرت ام معبد (رض) بیان کرتی ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو دعا کرتے ہوئے سنا آپ دعا کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریاء کاری سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھوں کو خیانت سے محفوظ فرما۔ یقیناً آپ خیانت کرنے والی آنکھ اور دلوں کے خیالات سے واقف ہیں۔“ (عَنْ أبِی أمَامَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَطْبَعُ الْمُؤمِنُ عَلٰی الْخِلَالِ کُلِّہَا اِلَّا الْخِیَانَۃَ وَالْکِذْبَ) [ رواہ أحمد : مسند ابی امامۃ] ” حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مومن میں ہر قسم کی کمزوری پائی جا سکتی ہے مگر خیانت اور جھوٹ نہیں پائے جا سکتے۔“ مسائل: 1۔ جھوٹے او گناہ گار کے لیے جہنّم ہوگی۔ ٢۔ قیامت کے دن مجرموں کی کوئی خیرخواہی نہیں کرسکے گا۔ 2۔ جو شحص اللہ کی آیات کو سنی اَن سنی کرتا ہے اسے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ 3۔ جو شخص اللہ کی آیات کو استہزاء کانشانہ بناتا ہے اسے ذلیل کردینے والا عذاب دیا جائے گا۔ 4۔ قرآن مجید ہدایت بن کر آیا ہے لیکن جو لوگ اس کے فرامین کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ تفسیربالقرآن : قیامت کے دن مجرموں کی کوئی بھی مدد نہیں کرسکے گا : 1۔ اللہ کے مقابلہ میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (ہود :20) 2۔ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت :22) 3۔ تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔ (البقرۃ:107) 4۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسا نہیں جو تمہاری مدد کرسکے۔ (البقرۃ:120) 5۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ولی اور بچانے والا نہیں ہے۔ (الرعد :37) 6۔ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے۔ (الشوریٰ:31)