سورة الجاثية - آیت 5

وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن رِّزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور رات اور دن کے بدلنے میں اور اس رزق میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیا اور ہواؤں کے پھیرنے میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 5 سے 6) ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی قدرت کی مزید نشانیوں کا تذکرہ۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا شخص جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کے آنے جانے اور آسمان سے بارش برسانے اور بارش کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کرنے اور ہواؤں کا کئی بار تذکرہ کیا ہے۔ یہ تمام کام صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظہر ہیں۔ ان میں کوئی ایک کام ایسا نہیں جس کا معمولی حصہ بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کرسکے اور نہ ہی ان کاموں میں اس کا کوئی معاون ہے اور نہ ہوگا۔ لیکن ان کاموں پروہی شخص غور کرے گا جو اپنی عقل سے کام لے گا۔ جس نے ان چیزوں پر غور کرلیا وہ ” اللہ“ پر ضرور ایمان لائے گا۔ اس لیے ان آیات میں پہلے ایمان کا ذکر ہوا پھر یقین کرنے کی بات ہوئی اور اب عقل کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ایمان تک پہنچنے کے لیے یہی تین مدارج ہیں۔ انسان اللہ تعالیٰ کے کاموں پر غور کرے تو اس کی عقل تسلیم کرے گی کہ میرے رب نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ یقین کرنے کے قابل ہے۔ جس میں یقین پیدا ہوگا وہ ایمان کی دولت سے سرفراز ہوجائے گا۔ یہاں رزق کا تعلق آسمان سے بیان کیا گیا ہے جس کے بنیادی طور پر دو اسباب ہیں۔ 1۔ رزق کا کنٹرول آسمان میں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جس رزق کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ آسمان میں ہے۔ (الذٰریات :22) اس کا دوسرا تعلق زمین کے ساتھ ہے جس کے بارے میں بتلایا ہے کہ زمین میں جو بھی چلنے والا ہے اس کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ (ہود :6) رزق کاسب سے بڑا سبب پانی ہے اور پانی کا سب سے بڑا ذریعہ بارش ہے۔ اگر طویل عرصہ تک بارش نہ ہو تو زمین کا پانی اتنا گہرا ہوجاتا ہے کہ اسے انسان کے لیے حاصل کرنا ممکن نہیں رہتا۔ بارش کے ذریعے ہی زمین نباتات اگانے کے قابل ہوتی ہے اور بارش کانظام ہوا کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور ہوا بھی کئی قسم کی ہوتی ہے۔ دنیا کے کچھ حصوں میں ہوا گر م مرطوب ہوتی ہے اور کچھ حصوں میں ہوا میں رطوبت کی بجائے جدّت زیادہ ہوتی ہے۔ کچھ ہوائیں بادلوں کو دھکیل کردور سے دور لے جاتی ہیں اور کچھ ہوائیں بادل برسانے والی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کے لیے بھی ایک مدار قائم فرمایا ہے اس مدار سے اوپر ہوا بہت کم رہ جاتی ہے۔ پھر فضا میں ہر مقام پر ہوا کا دباؤ ایک جیسا نہیں رہتا۔ فضا کے اندر ہوا کے درمیان خلا پائے جاتے ہیں۔ جنہیں ائیر لائن کی زبان میں (AIR POCKET) کہا جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ فضا میں صرف پانچ منٹ کے لیے ہوا ختم کردے تو زمین پر ہی نہیں بلکہ زمین کے اندر اور پانی میں رہنے والی مخلوق بھی ختم ہوجائے۔ یہاں تک کہ فضا میں اڑنے والے پرندے اور جہاز بھی زمین پر گر پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہوا کو شیشے کی طرح صاف بنایا ہے۔ اگر ہوا کو رنگ آلود کردیا جاۓ تو سورج کی روشنی کے باوجود کوئی چیز نظرنہ آئے۔ جس سے ہرقسم کی آمدروفت جامد ہو کر رہ جائے۔ غور فرمائیں کہ اگر اللہ تعالیٰ مقررہ حد سے زیادہ ہوا چلا دے تو ہر چیز اڑنا شروع ہوجائے گی۔ فوائد کے اعتبار سے ہوا انسان کے کھانے پینے سے بھی زیادہ اہم نعمت ہے۔ اللہ کی نعمتوں کی وہی لوگ قدر کرتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے عقل سلیم عطا فرمائی ہے۔ عقل سلیم ہی انسان کو صراط مستقیم پر گا مزن کرتی ہے۔ اس لیے فرمایا ہے کہ ان دلائل کے بعد پھر کون سے دلائل ہوں گے جن پر کافر اور مشرک ایمان لائیں گے۔ مسائل: 1۔ رات اور دن کے آنے جانے، آسمان سے رزق کے نازل ہونے، بارش کے ساتھ زمین کے زندہ ہونے اور ہوائیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے دلائل ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے مگر اس کے باوجود لوگ عقل سے کام نہیں لیتے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے توحید و رسالت اور قیامت کے بارے میں کھول کھول کر حقائق بیان کیے ہیں مگر مشرک اور کافر ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔