سورة الدخان - آیت 34

إِنَّ هَٰؤُلَاءِ لَيَقُولُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک یہ لوگ یقیناً کہتے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 34 سے 36) ربط کلام : فرعون اور اس کے ساتھیوں کا انجام ذکر کرنے کے بعد اہل مکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم بھی گھمنڈ میں آکر کہتے ہو کہ دنیا کی موت ہی ہمارا آخری انجام ہے کیا انہیں معلوم نہیں کہ قیامت کا انکار کرنے والوں کا کیا انجام ہوا جن میں قوم آل فرعون کے ساتھ تبع بھی شامل ہے۔ قرآن مجید نے منکرین قیامت کو سمجھانے کے لیے عقلی اور نقلی دلائل کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ قیامت ہر صورت قائم ہوگی۔ لیکن قیامت کا انکار کرنے والے بلادلیل اپنی بات اور ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی۔ نبی (ﷺ) نے انہیں قرآن مجید کے دلائل کے ساتھ بار بار سمجھایا کہ قیامت ہر صورت برپا ہوکررہے گی۔ کوئی ڈوب کے مرے یا آگ میں جل کرخاکستر ہوجائے۔ ہر صورت اللہ تعالیٰ اسے اپنی بارگاہ میں حاضر کرے گا اور اس سے پورا، پورا حساب لیا جائے گا۔ اتنے واضح اور ٹھوس دلائل ہونے کے باوجود مکہ کے لوگ آپ (ﷺ) کے سامنے اس بات پر مصرّ تھے کہ بس آدمی جب مرجاتا ہے تو پھر اس نے دوبارہ زندہ نہیں ہونا۔ وہ یہ دلیل پیش کرتے کہ اگر واقعی قیامت آنی ہے تو ہمارے باپ دادا کو اٹھالائیں۔ ہم ان سے پوچھیں گے کہ مرنے کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں قرآن مجید نے کئی واقعات کا ذکر کیا ہے خاص طور پر حضرت ابر ہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عزیر، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں زندہ ہونے والے افراد کا قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور فرمایا۔ ﴿وَقَالُوا أَءِذَا کُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَءِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِیدًا۔ قُلْ کُونُوا حِجَارَۃً أَوْ حَدِیدًا۔ أَوْ خَلْقًا مِمَّا یَکْبُرُ فِی صُدُورِکُمْ فَسَیَقُولُونَ مَنْ یُعِیدُنَا قُلِ الَّذِی فَطَرَکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃ﴾ [ بنی اسرائیل : 49تا51] ” اور وہ کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تو کیا واقعی ہم پھر اٹھائے جائیں گے۔ فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ یا کوئی ایسی مخلوق بن جاؤ جو تمہارے دلوں میں بڑی ہے لیکن عنقریب وہ کہیں گے کون ہمیں لوٹائے گا ؟ فرما دیں جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا۔“ مسائل: 1۔ قیامت کا انکار کرنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہونا۔ 2۔ قیامت کا انکار کرنے والے سب سے بڑی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کو ہمارے سامنے لایا جائے تب ہم ایمان لائیں گے کہ واقعی قیامت قائم ہوگی۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کا مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا : 1۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا تھا۔ (بنی اسرائیل :51) 2۔ ہم نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ:55) 3۔ اللہ ہی مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے، پھر وہی اسے دوبارہ لوٹائے گا۔ (یونس :4) 4۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے مخلوق کو پہلی بار پیدا کیا، پھر اسے لوٹائے گا اور یہ کام اس کے لیے آسان ہے۔ (الروم :27) 5۔ اللہ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم :11) 6۔ کیا اللہ کو اس بات پر قدرت نہیں ؟ کہ وہ مردوں کو زندہ فرمائے۔ (القیامۃ:40) 7۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے سامنے چار پرندوں کو زندہ کیا۔ (البقرہ :260) 8۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے سامنے ان کی قوم کے ستر سرداروں کو موت دے کر دوبارہ زندہ کیا۔ (الاعراف :155) 9۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو موت دے کر دنیا میں دوبارہ زندہ کیا۔ (البقرۃ:243) 10۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے سامنے ایک مقتول کو زندہ کیا۔ ( البقرۃ:73) 11۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے ہاتھوں مردوں کو زندہ فرمایا۔ (المائدۃ :110) 12۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو تین سو نو سال سلاکر بیدار فرمایا۔ (الکہف :25) 13۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کوسو سال مارنے کے بعد زندہ فرمایا۔ (البقرۃ:259) 14۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیرکے گدھے کو ان کے سامنے دوبارہ زندہ فرمایا۔ (البقرۃ:259)