سورة الزخرف - آیت 46

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَقَالَ إِنِّي رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا تو اس نے کہا بے شک میں تمام جہانوں کے رب کا بھیجا ہوا ہوں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 46 سے 50) ربط کلام : اہل مکہ غرور اور تکبرکی بنا پر نبی محترم (ﷺ) کو رسول تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس لیے اس موقع پر موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان ہونے والی کشمکش کا کچھ حصہ بیان کیا جاتا ہے۔ تاکہ مکہ والوں اور دوسرے لوگوں کو معلوم ہو کہ فرعون نے تکبر کی بنیاد پر موسیٰ (علیہ السلام) کی مخالفت کی تھی جس بنا پر اس کا بدترین انجام ہوا۔ اے مکہ والو ! تم نبی (ﷺ) کی مخالفت کر رہے ہو لہٰذا اپنا انجام سوچ لو۔۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غلام قوم کے ایک فرد تھے۔ جب جوان ہوئے تو ان کے ہاتھوں سرکاری پارٹی کا ایک آدمی سہواً قتل ہوا جس بنا پر موسیٰ (علیہ السلام) مدین کی طرف ہجرت کرگئے۔ مدین میں ایک عرصہ گزارنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر واپس آرہے تھے تو راستہ میں انہیں نبوت عطا ہوئی۔ نبوت ملنے کے ساتھ دو معجزات بھی عطا کیے گئے۔ حکم ہوا کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کے پاس جاؤ اور انہیں اپنے رب کی توحید سمجھاؤ ! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور یہ درخواست کی کہ میری معاونت کے لیے میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبی بنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو ان کا معاون بنایا۔ حضرت موسیٰ، ہارون کے ساتھ فرعون اور ان کے وزیروں کے پاس گئے اور انہیں اللہ کی توحید کا پیغام سنایا اور اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ نہ معلوم ! موسیٰ (علیہ السلام) نے کتنی مدت تک جدوجہد جاری رکھی۔ اس دوران جادوگروں کے ساتھ معرکہ پیش آیا جس میں موسیٰ (علیہ السلام) کامیاب ہوئے اور جادوگر موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی۔ لیکن فرعون اور اس کے ساتھی موسیٰ کے معجزات دیکھنے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے۔ نہ صرف ایمان نہ لائے بلکہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے بار بار مطالبہ کرتے رہے کہ تیرے کہنے کے باوجودہم پر عذاب نازل کیوں نہیں ہوتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کو پانچ سخت اور ذلیل کردینے والے عذاب دیے۔ سیلاب : 1۔ بارش انسانی صحت اور ہر چیز کی نشوونما کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر زمین مردہ اور ہر چیز مرجھا جاتی ہے۔ بشرطیکہ یہ مناسب مقدار میں ہو۔ اگر بارش غیر معمولی ہو تو اس سے ہر چیز تباہ ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آل فرعون پر غیر معمولی بارشیں نازل کیں۔ جس سے ان کی فصلیں تباہ، جانور بدحال اور مکانات گر گئے۔ باد وباراں کے طوفان اس لیے نازل کیے گئے تاکہ یہ لوگ توبہ و استغفار کریں۔ لیکن توبہ کرنے کے بجائے یہ لوگ تکبرّاور نافرمانی میں آگے ہی بڑھتے گئے۔ اس کے بعد ٹڈیوں کا عذاب نازل ہوا۔ ٹڈیوں کے جھنڈ : 2۔ ٹڈیوں کے دل کے دل امڈ آئے اور انہوں نے سیلاب سے بچ جانے والی فصلوں کو تباہ کیا بلکہ درختوں کی ٹہنیاں تک چبا ڈالیں۔ جوؤں کی بہتات : 3۔ آل فرعون کے لباس اور جسم کے ایک ایک روؤگٹے میں اس قدر جوئیں پیدا ہوئیں کہ ان کا رات کا سونا اور دن کا سکون غارت ہوگیا۔ لوگوں نے خارش کر کر کے اپنے جسم لہولہان کرلیے مگر ایمان نہ لائے۔ مینڈکوں کی بہتات : 4۔ جوؤں کے بعد مینڈکوں کا اتنا شدید سیلاب آیا کہ مینڈکوں کے ڈَل کے ڈَل ان کے کھیتوں، کھلیانوں اور گھروں میں اس طرح گھس آئے کہ ان کے لیے چار پائی پر سونا بھی حرام ہوگیا۔ خوفناک شکل اور بھاری بھرکم مینڈک ملک میں اس طرح پھیل گئے کہ ہر شخص خوف کے مارے چھپتا پھرتا تھا۔ خون ہی خون : 5۔ ہر کھانے پینے والی چیز میں خون ہی خون پیدا ہوا، یہاں تک کہ آل فرعون خواتین کی چھاتیوں میں دودھ کی بجائے خون اتر آیا حتیٰ کہ آل فرعون میں سے کوئی کسی اسرائیلی سے پانی طلب کرتا تو جونہی پانی کو پینے لگتا تو وہ بھی گندے خون میں تبدیل ہوجاتا۔ بعض مفسرین نے یہاں تک لکھا ہے کہ آل فرعون کی ایک عورت نے انتہائی قلق کی حالت میں اپنی پڑوسن اسرائیلی عورت کو کہا کہ پانی کی ایک کلی میرے منہ میں ڈال دے تاکہ مجھے سکون حاصل ہو۔ جب اس کی پڑوسن نے ایسا کیا تو پانی کی کلی آل فرعون کی عورت کے منہ میں جا کر خون میں تبدیل ہوگئی۔ نہ معلوم فرعون نے پہلے پہل ان عذابوں کے بارے میں عوام میں کیا تاثر دیا ہوگا اور ان کے مقابلہ میں سرکاری سطح پر کیا کیا جتن کیے ہوں گے لیکن جب اس کی تمام کوششیں ناکام ہوئیں تو وہ ہر عذاب کے بعد مجبور ہو کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہو کر انتہائی عاجزی کے ساتھ پختہ وعدہ کرتے ہوئے کہتا کہ اے موسیٰ ! اپنے رب کے حضور دعا کیجیے کہ یہ عذاب ہم سے ٹل جائے۔ اس عذاب سے نجات ملے گئی تو ہم آپ پر ایمان لاکر بنی اسرائیل کو آزاد کردیں گے۔ لیکن جونہی موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے عذاب ٹلتا تو وہ عہد شکنی کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ شرک و کفر کرتے اور بنی اسرائیل کو اذیتیں دیتے۔ قرآن و حدیث میں ان عذابوں کے دورانیہ کی وضاحت نہیں ملتی تاہم تفسیر روح المعانی اور قرطبی کے مؤلفین نے بنی اسرائیل کی روایات کو بنیاد بنا کر لکھا ہے کہ ہر عذاب کا دورانیہ ایک ہفتہ پر محیط ہوتا تھا۔ اور اس کے بعد ایک مہینہ کی مہلت دی جاتی تھی جب کہ لوگ کچھ آسودہ حال ہوتے تو پہلے سے زیادہ کفر و شرک اور مظالم کا ارتکاب کرتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے فرعون ہر مشکل موقع پر فریاد کرتا مگر اس کی رعونت کا حال یہ تھا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جادو گر کہہ کر پکارتا تھا۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) اپنے عظیم حوصلہ اور قوم کی خیرخواہی کی خاطر یہ گستاخی برداشت کرتے کہ شاید ان میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئیں۔ فرعون اور اس کے ساتھی ہر بار عہد شکنی کرتے تھے۔ ایک موقعہ پر فرعون نے یہاں تک ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا۔