فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
پس تو اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھ جو تیری طرف وحی کیا گیا ہے، یقیناً تو سیدھے راستے پر ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : نبی اکرم (ﷺ) کو حکم ہوا کہ حالات جیسے بھی ہوں آپ نے اپنے رب کی وحی کے مطابق چلنا اور اس کا ابلاغ کرنا ہے۔ اور یہی سیدھا راستہ ہے۔” تَمَسَّک“ کا معنٰی ہے چمٹنا، تھامنا، کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑنا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو اپنا رسول منتخب فرمایا۔ الرسول کا سب سے پہلا کام ” اللہ“ کی وحی پر اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرنا اور مکمل طور پر لوگوں تک پہنچانا ہے۔ وحی کا بنیادی مقصد لوگوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرنا ہے۔ یہی صراط مستقیم ہے جس پر آپ (ﷺ) تادم واپسیں قائم رہے اور لوگوں کی راہنمائی کرتے رہے۔ یہاں کفار کی اس یا وہ گوئی کا جواب دیا گیا ہے جو وہ عوام میں کرتے اور پھیلاتے تھے۔ کہ محمد (ﷺ) اپنے آباؤ اجداد کے صحیح راستے سے بہک گیا ہے۔ اس کا جواب سورۃ یًٰس کی ابتدائی آیات میں یوں دیا گیا ہے۔ اے سردار ! قرآن مجید کی قسم یقیناً آپ انبیاء میں شامل ہیں اور صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا ” میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑلو! (عَضُّوا عَلَیْہَا بالنَّوَاجِذِ وَعَلَیْکُمْ) تم اسے دانتوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑنا“ [ رواہ ابن ماجۃ: فی المقدمۃ : باب اتِّبَاعِ سُنَّۃِ الْخُلَفَآء الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْن] مسائل : 1۔ نبی محترم (ﷺ) بھی اپنے رب کی وحی کے پابند تھے۔ 2۔ آپ (ﷺ) صراط مستقیم پر قائم رہے اور لوگوں کی راہنمائی کرتے رہے۔ تفسیربالقرآن : صراط مستقیم کے بنیادی اصول : 1۔ کچھ نہ کرنے والا اور اچھی باتوں کی تعلیم دینے والا اور صراط مستقیم پر چلنے والا برابر ہو سکتے ہیں؟ (النحل :76) 2۔ جس شخص نے اللہ کی رسی کو پکڑلیا اس کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی گئی۔ (آل عمران :101) 3۔ اللہ کو ایک ماننا صراط مستقیم ہے۔ (آل عمران :51) 4۔ ایک اللہ کی عبادت کرنے والا صراط مستقیم پر ہے۔ (یٰس :61)