سورة الزخرف - آیت 36

وَمَن يَعْشُ عَن ذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَانًا فَهُوَ لَهُ قَرِينٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جو شخص رحمن کی نصیحت سے اندھا بن جائے ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں، پھر وہ اس کے ساتھ رہنے والا ہوتا ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 36 سے 39) ربط کلام : دنیا کوسب کچھ سمجھنے والا شخص نہ صرف آخرت کو فراموش کرتا ہے بلکہ اپنے رب کی یاد سے بھی غافل ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں شیطان اس کا ساتھی بنا دیا جاتا ہے۔ جو شخص اپنے رب کی یاد سے غافل ہوجائے اللہ تعالیٰ اس پر شیطان مسلط کردیتا ہے اور وہ اس کا مستقل ساتھی بن جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو شیطان نیکی کے کاموں سے روک لیتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں۔ ہم صحیح راستہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ موت کے بعد جب اس کی حاضری اپنے رب کے حضور ہوگی تو وہ افسوس کے ساتھ اس بات کا اظہار کرے گا کہ کاش! دنیا میں میرے اور شیطان کے درمیان مشرق اور مغرب کی دوری ہوتی۔ اس کے ساتھ ہی شیطان کو مخاطب کرتے ہوئے کہے گا کہ تو میرا بدترین ساتھی ثابت ہوا۔ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوگا کہ تمہارا ایک دوسرے سے جھگڑنا اور اپنے کیے پر افسوس کا اظہار کرنا۔ آج کے دن اس کا تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تم نے ہرقسم کے مظالم کیے ہیں لہٰذا عذاب میں بھی تم ایک دوسرے کے ساتھی ہوگے۔ ان آیات میں تین باتوں کی طرف خصوصی طور پر توجہ دینا چاہیے۔ 1۔” ذکر الرحمن“ سے مراد صرف زبانی ذکر نہیں بلکہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا حکم ماننا اور اس کو یاد رکھنا ہے۔ 2 ۔اللہ تعالیٰ کا کسی پر شیطان مسلط کرنے کا یہ معنٰی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے لیے برا راستہ اختیار کرلیتا اور اس پر اصرار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو شیطان کے حوالے کردیتا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ناراض ہو کر اس پر شیطان کو مسلط کردیا ہے۔ جس پر شیطان مسلط کردیا جائے وہ مرتے دم تک نیکی اختیار کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ 3 ۔شیطان پہلا کام یہ کرتا ہے کہ وہ برائی اور بے حیائی کو لوگوں کے سامنے فیشن کے طور پر پیش کرتا ہے۔ برائی کو فیشن کے طور پر اختیار کرنے والے لوگوں کی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے طرز زندگی کو صحیح تصور کرتے ہیں۔ ایسے شخص کا صحیح راستے کی طرف آنا ممکن نہیں ہوتا۔ قیامت کے دن یہ لوگ ایک دوسرے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔ یہاں تک کہ شیطان بھی ان سے برأت کا اعلان کر دے گا۔[ ابراہیم :22] مسائل : 1۔ الرحمن کے ذکر سے غفلت کرنے والے پر شیطان مسلط کردیا جاتا ہے 2۔ جس پرشیطان مسلط کردیا جائے وہ برائی کو اچھائی سمجھتا ہے۔ 3۔ قیامت کے دن مجرم اس بات کی خواہش کرے گا کہ کاش! دنیا میں میرے اور شیطان کے درمیان بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِہوتا۔ 4۔ قیامت کے دن ظالم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکیں گے اور جہنّم میں اکٹھے ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن : قیامت کے دن مجرمین کی خواہش اور آرزو : 1۔ جہنمی کہیں گے اے اللہ ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا اب ہم کو واپس لوٹا دے۔ (السجدۃ:12) 2۔ جب بھی جہنم سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو دوبارہ جہنم میں لٹادئیے جائیں گے۔ (السجدۃ:20) 3۔ جب بھی ارادہ کریں گے کہ ہم نکلیں جہنم سے تو اس میں واپس لٹائے جائیں گے۔ (الحج :22) 4۔ جہنمی کی خواہش ہوگی کہ دنیا میں واپس بھیج دیا جائے۔ (الانعام : 27تا28) 5۔ اے رب ہمارے! ہمیں یہاں سے نکال ہم پہلے سے نیک عمل کریں گے۔ (الفاطر :37)