بَلْ مَتَّعْتُ هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْحَقُّ وَرَسُولٌ مُّبِينٌ
بلکہ میں نے انھیں اور ان کے باپ دادا کو برتنے کا سامان دیا، یہاں تک کہ ان کے پاس حق آگیا اور وہ رسول جو کھول کر بیان کرنے والا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 29 سے 31) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کا مختصر ذکر کرنے کے بعد اب پھر اہل مکہ کو برائے راست مخاطب کیا گیا ہے۔ اہل مکہ تعصّب میں آکر اس قدر بوکھلا چکے تھے کہ وہ کسی ایک بات پر قائم نہیں رہتے تھے۔ جس بنا پر نئی سے نئی بات اور انوکھے سے انوکھا الزام لگاتے تھے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ انہیں مہلت پہ مہلت دئیے جارہا تھا۔ جب کسی ظالم شخص کو طویل مدت تک مہلت حاصل ہوجائے تو وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ وہ حق پر نہیں ہوتا۔ اہل مکہ بھی اپنے آپ کو حق پر گمان کرتے تھے۔ ان کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ ان کی گمراہی اور مخالفت کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم انہیں مہلت دئیے جا رہے ہیں۔ جبکہ ان میں حضرت محمد (ﷺ) واضح حق کے ساتھ مبعوث کردئیے گئے ہیں۔ کفار کی تاریخ یہ ہے کہ جب بھی ان کے پاس حق پہنچا تو انہوں نے اسے جادوقرار دیا اور کہا کہ ہم کھلے بندوں حق کا انکار کرتے ہیں۔ یہی اہل مکہ کا تھا ان کا کہنا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے واقعی قرآن کسی شخص پر نازل کرنا ہوتا تو مکہ اور طائف کے بڑے سرداروں میں سے کسی ایک پر نازل کیا جاتا۔ نبوت کے لیے وہ ابوجہل اور طائف کے سرداروں کا نام لیتے تھے۔ قرآن مجید میں اس بات کے اور بھی جواب دیئے گئے ہیں جن میں ایک جواب یہ ہے کہ کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرنے والے ہیں یا آپ کا رب اسے تقسیم اور نازل کرنے پر اختیار رکھتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ہر قسم کے اختیارات اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہیں اور وہ اپنی رحمت اپنی مرضی کے مطابق تقسیم کرنے والا ہے۔ یہاں رحمت سے پہلی مراد نبوت اور دوسری مراد معیشت ہے۔ ﴿اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰہِ وَ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا کَانُوْا یَمْکُرُوْنَ﴾ [ الانعام :124] ” اللہ زیادہ جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں بھیجے۔ عنقریب ان لوگون کو جنہوں نے جرم کیے اللہ کے ہاں ذلت اور سخت عذاب پہنچے گا۔ اس وجہ سے کہ وہ مکرو فریب کرتے تھے۔“ ﴿مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَ لَا الْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ اللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ [ البقرۃ:105] ” نہ اہل کتاب کے کافر اور نہ ہی مشرکین چاہتے ہیں کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی نازل ہو اللہ تعالیٰ جسے چاہے اپنی رحمت کے ساتھ خاص فرماتا ہے۔ اللہ بڑے فضل والا ہے۔“ مسائل : 1۔ اکثر لوگ اپنے رب کی دی ہوئی مہلت سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ 2۔ کفار کے پاس جب بھی حق آیا انہوں نے اس کا انکار ہی کیا۔ 3۔ اہل مکہ کا یہ بھی اعتراض تھا کہ نبّوت طائف یا مکہ کے کسی سردار پر نازل ہونی چاہیے تھی۔ 4۔ کسی کو رسول منتخب کرنا اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنا رسول نامزد کرتا ہے۔ 5۔ نبی (ﷺ) کے بعد قیامت تک نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔ تفسیر بالقرآن : کفار اور مشرکین کا حق کے ساتھ رویہ : 1۔ مشرکین نے کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے۔ (النحل :35) 2۔ مشرکین نے آپ پر اعتراض کیا کہ آپ پر خزانہ کیوں نہیں نازل کیا جاتا۔ (ھود :12) 3۔ بنی اسرائیل نے کہا اے موسیٰ جب تک ہم اللہ کو اپنے سامنے نہیں دیکھ لیتے ہم ایمان نہیں لائیں گے۔ (البقرۃ:55) 4۔ کفار اور مشرکین نے نبی (ﷺ) کو جادوگر کہا۔ (الذاریات : ٥٢) ٥۔ کفار اور مشرکین نے کہا یہ نبی کذاب اور جادوگر ہے۔ ( ص :4)