وَكَذَٰلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ
اور اسی طرح ہم نے تجھ سے پہلے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجا مگر اس کے خوشحال لوگوں نے کہا کہ بے شک ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پایا اور بے شک ہم انھی کے قدموں کے نشانوں کے پیچھے چلنے والے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 23 سے 25) ربط کلام : جس طرح کے بہانے مشرکین مکہ پیش کرتے تھے۔ اسی طرح کے بہانے پہلے لوگوں نے اپنے انبیائے کرام (علیہ السلام) کے سامنے پیش کیے۔ بہانے پیش کرنے والوں میں سر فہرست ان کا مال دار طبقہ تھا۔ نبی کریم (ﷺ) اور آپ کے ساتھیوں کے اطمینان کی خاطر بتلایا گیا کہ آپ سے پہلے جس بستی میں بھی رسول مبعوث کیا گیا وہاں کے سرمایہ دار طبقہ نے اپنے نبی کے سامنے یہی بہانہ پیش کیا کہ ہم اسی راستے پر چلتے رہیں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ہم اپنے بزرگوں کا مذہب اور کلچر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہر قوم کے نبی نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے بہترین راہنمائی لایا ہوں۔ کیا پھر بھی تم اپنے باپ دادا کے دین اور رسم ورواج کو اپنائے رکھو گے ؟ ان لوگوں نے کھلے الفاظ میں کہا ہاں ہم تمہاری بات اور طریقے کا انکار ہی کرتے رہیں گے۔ جب یہ لوگ ایک حد سے آگے بڑھ گئے اور انہوں نے اپنے پیغمبر کا رہنا سہنا محال کردیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بغاوت کا انتقام لیا۔ تاریخ کے اوراق اور ان قوموں کے آثار دیکھو! انبیاء ( علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ ان آیات میں یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ ہر قوم کے مال دار طبقہ کی اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے جو باطل تحریکوں اور تنظیموں کی اس لیے بشت پنا ہی کرتی ہے تاکہ وہ اپنے سے پہلے لوگوں کی تہذیب اور رسومات کا بہانہ بنا کر اپنی عیش وعشرت کو جاری رکھ سکیں یہی کچھ اہل مکہ نبی آخر الزمان (ﷺ) کے ساتھ کررہے تھے اور یہی ہر دور میں ہوتا آرہا ہے۔ مسائل : 1۔ مال دار طبقہ کی اکثریت نے ہر دورکے نبی کی مخالفت کی ہے۔ 2۔ بالخصوص مال دار طبقہ باطل تحریک اور تہذیب وتمدن کی حمایت کرتا ہے۔ 3۔ بڑے لوگوں کی اکثریت نے ہمیشہ سے انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت کا انکار کیا ہے۔ 4۔ انبیائے کرام (علیہ السلام) کو جھٹلانے والوں سے اللہ تعالیٰ نے انتقام لیا۔ تفسیربالقرآن : بے دین مال دار طبقہ کا کردار اور انجام : 1۔ مالدار بخل کو اپنے لیے اچھا خیال کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کے لیے برا ہے۔ (آل عمران :180) 2۔ جب ہم ارادہ کرتے ہیں کہ کسی بستی کو ہلاک کریں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اس میں فسق و فجور کرتے ہیں تو اس بستی پر بات ثابت ہوجاتی ہے پھر ہم اسے بری طرح برباد کردیتے ہیں۔ (بنی اسرائیل :16) 3۔ جب بھی ہم نے کسی بستی میں رسول بھیجا تو مالدار لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے۔ (الزخرف :23) 4۔ کبھی ایسا نہیں ہوا ہم نے کسی بستی میں رسول بھیجا ہو اور اس کو مالدار طبقے نے نہ جھٹلایا ہو۔ ( سبا :34) 5۔ جو کچھ زمین میں ہے وہ باعث آزمائش ہے۔ (الکہف :7) 6۔ دنیا کی زندگی کا سامان آخرت کے مقابلے میں قلیل اور حقیر ہے۔ (التوبۃ:38) 7۔ دنیا کی زندگی صرف کھیل تماشا ہے۔ (العنکبوت :64) 8۔ دنیاکی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ (آل عمران :185) 9۔ لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے ہیں حالانکہ دنیا کی زندگی معمولی فائدہ ہے۔ (الرعد :26)