وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَٰنُ مَا عَبَدْنَاهُم ۗ مَّا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ
اور انھوں نے کہا اگر رحمان چاہتا تو ہم ان کی عبادت نہ کرتے۔ انھیں اس کے بارے میں کچھ علم نہیں، وہ تو صرف اٹکلیں دوڑا رہے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 20 سے 22) ربط کلام : قیامت کے دن مشرک سے اس کے شرک کے بارے میں ہر صورت سوال ہوگا۔ دنیا میں اس سے اس کے شرک کے بارے میں سوال کیا جائے اور اس کو اس کے باطل عقیدہ کے بارے میں سمجھایا جائے تو وہ سمجھنے کی بجائے مختلف قسم کے بہانے پیش کرتا ہے۔ اس کے بہانوں میں سے ایک بہانہ یہ ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم شرکیہ عقیدہ اختیار نہ کرتے۔ قرآن مجید نے ہر قسم کے دلائل کے ساتھ مشرکین کو یہ بات سمجھائی ہے کہ نہ تو اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنی اولاد بنایا ہے اور نہ ہی اس نے اپنی خدائی میں کسی کو اپنا شریک ٹھہرایا ہے۔ مشرکین مکہ کے پاس ان دلائل کا کوئی جواب نہ تھا اور نہ ہی آج کا مشرک اس کا جواب دے سکتا ہے اور نہ کوئی آئندہ اس کا جواب دے سکے گا۔ اس کے باوجود مشرکین دیگر بہانوں کے ساتھ یہ بہانے بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہو تو ہم کس طرح شرک کرسکتے ہیں؟ اس کے جواب میں فرمایا ہے کہ درحقیقت ان کے پاس علم نہیں جس وجہ سے یہ اٹکل پچو بیان کرتے ہیں۔ جو حقیقی معنوں میں شریعت کا علم جانتا ہے وہ اس قسم کی بے معنٰی باتیں نہیں کرتا۔ مشرک کے پاس علم نہ ہونے کا دوسرامعنٰی یہ ہے کہ کیا اسے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حد تک آزادی دے رکھی ہے۔ چاہے تو ہدایت قبول کرے نہ چاہے تو گمراہی کے راستے پر چلتا رہے۔ علم نہ ہونے کا صاف معنٰی ہے کہ مشرک جاہل ہوتا ہے کیا ان کے پاس پہلی آسمانی کتابوں میں سے کوئی آسمانی کتاب ہے کہ جس کی بنیاد پر اپنے باطل عقیدہ کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ ان الفاظ کے مخاطب اہل مکہ ہیں کیونکہ ان کے پاس قرآن مجید سے پہلے کوئی کتاب نہیں آئی تھی۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ایمان کی بنیاد عقیدہ توحید پر ہے اور توحید کے دلائل آسمانی کتابوں میں دیئے گئے ہیں یہی حقیقی اور ٹھوس علم ہے اس کے علاوہ ایمان کی حقیقی تشریح کہیں اور جگہ نہیں ملتی اور نہ ہی وہ قابل قبول ہوگی۔ کیونکہ علم کی حقیقی بنیاد وحی ہے۔ مشرکین مکہ سے ان دلائل کا جواب نہ بن پڑا تو کہنے لگے کہ ہم تو اسی راستے پر چلتے رہیں گے جن پرہم نے اپنے آباء و اجداد کو چلتے ہوئے پایا۔ قرآن مجید نے دوسرے موقع پر اس کا جواب یہ دیا ہے۔ کیا ان کے باپ دادا دین کی سمجھ اور ہدایت نہ رکھتے ہوں اس کے باوجودبھی یہ لوگ ان کاراستہ اختیار کریں گے اس سے بڑھ کرے بے عقلی اور گمراہی کی کیا دلیل ہوسکتی ہے ؟ (البقرۃ:170) مسائل : 1۔ مشرک بہانہ پیش کرتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ 2۔ حق کے منکراپنے آباء اجداد کی تقلید کو ہدایت کی دلیل سمجھتے ہیں۔ 3۔ مشرک جہالت کی بنا پر گمراہی پر قائم رہتے ہیں۔ 4۔ مشرک حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن : علم کی حقیقت اور اس کا فائدہ : 1۔ صاحب علم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔ (الزمر :9) 2۔ اللہ تعالیٰ ایمانداروں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔ (المجادلۃ:11) 3۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد اور سلیمان ( علیہ السلام) کو علم عطا کیا۔ (النمل :15) 4۔ یقیناً اللہ سے علماء ہی ڈرتے ہیں۔ (فاطر :28) 5۔ ہم لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتے ہیں مگر ان کو عالم لوگ ہی سمجھتے ہیں۔ (العنکبوت :43) 6۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وہ کچھ بتلایا جو یہ نہیں جانتا تھا۔ (العلق :5) 7۔ انسان کو رحمٰن نے قرآن سکھایا۔ (الرحمن :2) 8۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو لکھنا سکھایا۔ (العلق :4) 9۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بولنا اور بیان کرنا سکھلایا۔ (الرحمن :4) 10۔ آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے علم دیا۔ (البقرۃ:31) 11۔ فرشتوں نے بھی سب کچھ اللہ تعالیٰ سے سیکھا۔ (البقرۃ:32)