سورة الشورى - آیت 39

وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنتَصِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ لوگ جنھوں نے اپنے رب کا حکم مانا اور نماز قائم کی اور ان کا کام آپس میں مشورہ کرنا ہے اور ہم نے انھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 39 سے 43) ربط کلام : اہل ایمان کی نویں صفت۔ اہل ایمان کی یہ بھی صفت ہے کہ ان پر کوئی جارحیّت کرئے تو وہ پوری غیرت کے ساتھ اس کا جواب دیتے ہیں۔ اس سے پہلے اہل ایمان کی چوتھی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ جب انہیں غصہ آتا ہے تو وہ دوسرے کو معاف کردیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے کو معاف کرنا بہت بڑا کام ہے۔ لیکن جو لوگ اہل ایمان کو کمزور سمجھ کر دبانے اور جھکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت اہل ایمان کا فرض ہوجاتا ہے کہ وہ جارحیّت کرنے والوں کا پوری جرأت کے ساتھ جواب دیں۔ جارحیّت کرنے والوں سے مراد کافر بھی ہیں اور وہ مسلمان بھی جو کمزوروں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں ان کا ہاتھ روکنا لازم ہے۔ اگر ایسے لوگوں کے ہاتھ نہ روکے جائیں تو قوم اور معاشرہ عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے۔ اگر جارح غیر مسلم ہو تو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ جارحیّت کرنے والا مسلم ہو یا غیر مسلم اس کا بدلہ اتنا ہی لینا ہوگا جتنی وہ زیادتی کرے گا۔ اگر زیادتی کرنے والا مسلمان ہو اور وہ اپنی اصلاح کرنے پر آمادہ ہوجائے تو اسے معاف کردینا چاہیے۔ معاف کرنے والے کا اجر اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ بدلہ لینے والے کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ہاں جو لوگ زیادتی کا بدلہ لینا چاہیں ان پر کوئی گناہ نہیں۔ البتہ وہ لوگ ضرور گناہ گا رہوں گے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق فساد کرتے ہیں۔ انہیں اذیّت ناک عذاب ہوگا۔ جو صبر کرے اور اپنے مسلمان بھائی کو معاف کردے۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑے کاموں میں شمار ہوتا ہے۔ یادرہے کہ معافی فوج داری، مقدمات اور لین دین کے معاملے میں ہوگی۔ (عَنْ عَائِشَۃَ أَنَّھَا قَالَتْ مَاخُیِّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّآأَخَذَ أَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ إِثْمًا فَإِنْ کَانَ إِثْمًا کَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْہُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () لِنَفْسِہٖٓ إِلَّا أَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللّٰہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ بِھَا) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب، باب صفۃ النبی (ﷺ) ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کو دو کاموں میں اختیار دیا جاتا تو آپ دونوں میں سے آسان کام کو اختیار کرتے بشرطیکہ وہ گناہ کا کام نہ ہوتا۔ اگر کام گناہ کا ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے۔ آپ نے اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہ لیا البتہ جب اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لیے انتقام لیتے۔“ مسائل : 1۔ اللہ کے بندوں پر جارحیّت کی جائے تو وہ اس کا بدلہ لیتے ہیں۔ 2۔ بدلہ لیتے ہوئے زیادتی کرنا جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ 3۔ جس نے مسلمان بھائی کو معاف کردیا اس کا اجر اللہ کے ہاں ثابت ہوگیا۔ 4۔ جو معاف کرنے کی بجائے بدلہ لینا چاہے اس پر کوئی گناہ نہیں۔ 5۔ جو لوگوں پر ظلم اور زمین میں ناحق فساد کرتے ہیں انہیں اذیّت ناک عذاب ہوگا۔ 6۔ صبر کرنا اور دوسرے کو معاف کردینا عظیم کاموں میں سے ایک بڑا کام ہے۔