وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
اور وہ لوگ کہ جب ان پر زیادتی واقع ہوتی ہے وہ بدلہ لیتے ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ کے نیک بندوں کے مزید اوصاف۔ مشاورت کی اہمیت اور اس کی غرض وغایت : قرآن پاک نے مسلمانوں کو مشاورت کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ مسلمان اجتماعی مسائل کو اجتماعی انداز میں حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرز عمل کے بیک وقت کئی فوائد ہیں۔ ایک طرف اہل دانش کی دلجوئی ہے اور دوسری جانب ان کی صلاحیتوں سے اجتماعی فائدہ اٹھانا اور ان کی انفرادی فکر کو اجتماعی سوچ میں ڈھالنا اور باہمی فکرو عمل کا موقع فراہم کرنا ہے۔ یہ ایسا خیرو برکت سے بھرپور عمل ہے جس سے نبی اکرم (ﷺ) کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔ حالانکہ آپ مسلسل اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور ہدایات میں زندگی گزارتے ہوئے لوگوں کی راہنمائی فرمارہے تھے۔ آپ کی ذات گرامی کو حکم ہوا۔ ﴿وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ﴾ [ آل عمران :159] ” اور معاملات میں ان کو شریک مشورہ رکھا کرو، پھر جب آپ کا عزم کسی رائے پر پختہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔“ اس عمل کی اہمیت کو اجاگر اور ممتاز کرنے کے لیے پانچ رکوع پر مشتمل اس سورۃ کا نام ہی الشّورٰی رکھ دیا گیا تاکہ مسلمان مشاورت کے اصولوں کو اپناتے ہوئے اجتماعی زندگی بسر کرتے رہیں۔ نبی اکرم (ﷺ) اس حکم کے نزول سے قبل بھی صحابہ (رض) سے مشورہ فرماتے تھے لیکن نزول حکم کے بعد تو یہ حالت ہوگئی کہ آپ ہر کام میں صحابہ سے مشورہ فرماتے تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مشورہ کن امور میں کرنا چاہیے ؟ مشاورت کا حدود اربعہ کیا ہے ؟ بدر، احد، خندق غرضیکہ ہر اہم معاملہ میں آپ نے صحابہ کرام سے مشورہ فرمایا۔ جنگ سے پہلے مشاورت کا مقصد یہ نہیں تھا کہ جہاد کرنا چاہیے یا نہیں۔ اللہ کے واضح احکامات آجانے کے بعد ان کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں مشورہ کرنا تو درکنار، سوچنا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ مشاورت تو اس بات پر کرنی ہے کہ دشمن پر فوری حملہ کرنا ہے یا کہ موسم، وقت، میدان جنگ کا انتخاب، اپنی اور دشمن کی جنگی تیاریوں کا پورا پورا اندازہ کرکے کرنا ہے۔ ان امور کو اللہ تعالیٰ نے امت کے ذمہ داران پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ دیانت داری اور غیر جذباتی فضا میں تجزیہ کریں کہ ہم نے آگے بڑھ کر یلغار کرنی ہے یا صرف دفاع کرنا ہے اور کس وقت یہ اقدام اٹھانا ہے آپ (ﷺ) کے دور مبارک میں مجلس شوریٰ کے اجلاس اور ان کا ایجنڈا نماز باجماعت کے لیے مشورہ : انس بن مالک (رض) اور ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ مدنی دور کی ابتدا میں لوگ نماز کے اوقات اپنے اپنے اندازے سے متعین کرتے تھے۔ ایک دن جماعت کے لیے مشورہ کیا گیا۔ کسی نے یہود کے بوق کی تجویز پیش کی اور کسی نے نصاریٰ کے ناقوس بجانے کے لیے کہا۔ حضرت عمر (رض) نے یہ رائے دی کہ ایک شخض کو مقرر کیا جائے جو نماز کے اوقات میں بلند آواز سے لوگوں کو بلائے۔ بالآخر اسی پر فیصلہ ہوا اور رسول اللہ (ﷺ) نے اس کام پر حضرت بلال (رض) کو مقرر فرمایا۔ حضرت بلال (رض) نماز کے اوقات میں بلند آواز سے الصلوۃ جامعۃ کہا کرتے تھے۔ یعنی لوگو! نماز کے لیے جماعت تیار ہے لیکن بعد میں حضرت عبداللہ بن زید (رض) نے خواب میں اذان کے مروجہ الفاظ سنے اور رسول اللہ (ﷺ) کے سامنے بیان کیے آپ نے انہیں حکم دیا کہ یہ الفاظ بلال کو سکھلاؤ پھر بلال (رض) کو انہی الفاظ کے ساتھ اذان کہنے کا حکم دیا حضرت عمر (رض) نے اذان سنی تو دوڑتے ہوئے آئے اور نبی کریم (ﷺ) سے عرض کی کہ اللہ کی قسم میں نے یہی الفاظ خواب میں سنے ہیں۔ (رواہ ابوداؤد : باب کَیْفَ الأَذَانُ) بعد ازاں وحی بھی اسکی تائید میں آگئی۔ ابن حجر (رض) فرماتے ہیں۔ (مَبْدَاءُ الْاَذَانِ کَانَ عَنْ مَشْوَرَۃٍ اَوْقَعَھَا النَّبِیُّ بَیْنَ اَصْحَابِہِ حَتّٰی اِسْتَقَرَّ بِرُؤْیَا بَعْضُھُمْ وَفِیْہِ مَشْرُوْعِیَّۃٌ تَشَاوِرُ فِی الْاُمُوْرِ الْمُھِمَّۃِ) ” اذان کا آغاز مشاورت سے ہوا تھا جو رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے صحابہ (رض) کے ساتھ کی تھی۔ بعد میں بعض صحابہ (رض) کے خواب کے ذریعے اذان مقرر ہوئی۔ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اہم امور میں مشاورت کرنا شرعی طریقہ ہے۔“ غزوہ بدر کے بارے میں مشاور ت : انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے غزوہ بدر کے موقع پر صحابہ (رض) سے مشورہ کیا۔ ابوبکر (رض) اور عمر (رض) نے اپنی رائے دی مگر آپ (ﷺ) انصار کی رائے حاصل کرنے کے لیے خاموش رہے۔ انصار کے سردار سعد بن عبادہ انصاری (رض) نے اٹھ کر عرض کیا : اگر آپ حکم دیں تو ہم برک الغماد (یمن) تک گھوڑے دوڑانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ اس کے بعد روانگی کا حکم ہوا اور فوج مقام بدر پر مورچہ زن ہوگئی۔ کفار سے معاہدہ کرنے کے بارے میں مشورہ : غزوہ خندق کے موقع پر جب محاصرہ سخت ہوگیا تو رسول اللہ نے بنو غطفان کے لیڈروں عیینہ بن حصن اور حارث بن عوف کے ساتھ مدینہ منورہ کے باغات کے پھلوں کا 3/1 (ثلث) دے کر مصالحت کی بات کی تاکہ یہ دونوں سردار قریش کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں۔ آپ (ﷺ) کی اپنی رائے یہ تھی کہ مصالحت ہوجائے لیکن آخری فیصلہ کرنے سے قبل مشورہ کرنا ضروری سمجھا۔ انصار کے رہنماؤں میں سے سعد بن معاذ (رض) اور سعد بن عبادہ (رض) نے عرض کیا کہ اگر یہ ” اللہ“ کا حکم ہے تو ہمیں تسلیم ہے۔ اگر آپ (ﷺ) حالات کی وجہ سے حکم دینا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں تسلیم نہیں ہے۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اگر یہ اللہ کا حکم ہوتا تو میں آپ سے مشورہ نہ کرتا۔ چنانچہ آپ (ﷺ) نے اپنے خیال پر شوریٰ کی رائے کو ترجیح دی اور مصالحت کی بات ختم کردی۔ سفر جاری رکھنے یا واپس پلٹنے کے بارے میں مشاور ت : حدیبیہ کے سفر میں رسول اللہ (ﷺ) جب غدیر الاشطاط کے مقام پر پہنچے تو مسلمانوں کے مخبر نے اطلاع دی کہ قریش مکہ نے اپنے حلیف قبائل کو جمع کرلیا ہے جو آپ کو بیت اللہ سے روکنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر آپ (ﷺ) نے فرمایا مسلمانو! مجھے مشورہ دو کہ اب کیا اقدام کیا جائے۔ کیا یہ مناسب ہے کہ قریش کے ان دوستوں (احابیش) کے گھروں پر حملہ کیا جائے۔ ابوبکر (رض) نے رائے دی کہ آپ (ﷺ) کعبہ کی زیارت کی غرض سے آئے ہیں۔ پس آپ اسی غرض کے لیے آگے بڑھیں جو ہمیں روکے گا ہم اس سے لڑیں گے لیکن بعد میں معاہدہ صلح حدیبیہ طے پا گیا۔ جنگی قیدیوں کے بارے میں مشورہ : بدر کے قیدیوں کے متعلق رسول اللہ (ﷺ) نے صحابہ (رض) سے مشورہ کیا اور فرمایا قیدیوں کے بارے تمہاری کیا رائے ہے ؟ ابوبکر (رض) نے عرض کیا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دے ئے جائیں۔ لیکن عمر (رض) نے فرمایا، ان کی گردنیں اڑا دی جائیں اس لیے کہ یہ کفر کے امام اور دشمن قوم کے سردار ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے ابوبکر (رض) کی رائے کے مطابق فدیہ لے کر قیدیوں کو آزاد کردیا۔ غزوہ حنین میں بنو ہوازن کے 6ہزار قیدی اور بہت سارا مال ہاتھ آیا۔ رسول اللہ (ﷺ) نے جعرانہ کے مقام پر کچھ دن انتظار کیا اس خیال سے کہ اگر یہ لوگ ایمان لے آئیں تو ان کا مال اور قیدی دونوں واپس کر دئے جائیں۔ لیکن حنین والوں نے آنے میں دیر کی تو مال غنیمت تقسیم کردیا گیا۔ بعد میں جب یہ لوگ پشیمان ہو کر آئے تو آپ (ﷺ) نے لوگوں کو بلایا اور فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدی رہا کر د ئے جائیں تم میں سے جو خوشی سے اپنا قیدی آزاد کرنا چاہے تو بہتر ہے ورنہ ہم اسے معاوضہ دے کراس سے قیدی آزاد کرا لیں گے۔ کچھ لوگوں نے کہا ہم بخوشی آزاد کرتے ہیں کچھ نے انکار کیا۔ صورتحال واضح نہ ہوسکی تو آپ (ﷺ) نے فرمایا تم واپس جا کر اپنے نمائندوں (عرفاء) کو اپنی رائے دو۔ نمائندوں نے آکر کر رپورٹ دی کہ سب کے سب راضی ہیں۔ تب رسول اللہ (ﷺ) نے تمام قیدی رہا کر دئے۔ تفصیل کے لیے میری کتاب (اتحاد امت اور نظم جماعت) ملاحظہ فرمائیں۔