وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنشُرُ رَحْمَتَهُ ۚ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ
اور وہی ہے جو بارش برساتا ہے، اس کے بعد کہ وہ ناامید ہوچکے ہوتے ہیں اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے اور وہی مدد کرنے والا ہے، تمام تعریفوں کے لائق ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : جو ” اللہ“ لوگوں کا رزق مقرر کرتا اور انہیں عطا کرتا ہے وہی آسمان سے بارش برساتا ہے۔ صرف ایک ” اللہ“ ہے جو لوگوں کے مایوس ہونے کے وقت آسمان سے بارش نازل کرتا ہے اور اس کے ذریعے اپنی رحمت بکھیر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی لوگوں کا والی اور خیرخواہ ہے جو ہر تعر یف کے لائق ہے۔ اس کے سوا کوئی بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں برسا سکتا۔ بارش سراسر ” اللہ“ کی رحمت ہے۔ بالخصوص جب لوگ اس کے برسنے سے ناامید ہوجاتے ہی۔ تو پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اور اس کے بعد موسلادھار بارش برستی ہے جس کے بارے میں ” یَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ” یَنْشُرُ“ کے لفظ پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہواؤں کے ذریعے کس طرح بخارات کو اٹھاتا اور ان کو بادلوں میں تبدیل کرتا ہے۔ پھر اس کے حکم سے بادل اس طرح ٹپکتے اور برستے ہیں کہ ہر چیز گرد غبار سے دھل جاتی ہے آج تک کبھی نہیں ہوا کہ بادل کسی آبشار یا پرنالے کی طرح ایک ہی جگہ پر پانی انڈیل دیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بادل اس طرح برستے ہیں جس طرح کسی فوارے سے پانی نکلتا ہے۔ اگر بادل ایک ہی دفعہ پانی انڈیل دیں تو کوئی بستی اور شہر باقی نہ رہے۔ بارش کے برسنے کا انداز اور اس کا پانی سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کرشمہ ہے۔ بارش کا پانی ندی نالوں اور دریاؤں کے ذریعے ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل ہوتا ہے۔ بارش اس قدر اپنے وجود میں اللہ تعالیٰ کی رحمت لیے ہوئے ہوتی ہے جس کے فوائد کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ البتہ چند فوائد ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ ہم بارش کی افادیت کو کسی حد تک سمجھ سکیں۔ 1 ۔بارش سے پوری فضاصاف اور جراثیم سے پاک ہوجاتی ہے۔2 ۔بارش سے موسم کی تلخی ختم ہوجاتی ہے اور فضا خوشگوار بن جاتی ہے۔3 ۔بارش سے درختوں کا پتاپتا دھل جاتا ہے اور پھلوں میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے۔4 ۔بارش سے نہ صرف دریاؤں اور جھیلوں میں پانی کی مقدار بڑھتی ہے بلکہ زمین کے اندر کا پانی بھی اوپر آجاتا ہے۔ 5 ۔بارش سے انسان ہی نہیں بلکہ ہر جاندار چیز مستفید ہوتی ہے۔6 ۔بروقت بارش سے فصلیں دوگنی ہونے کے ساتھ بجلی کی بچت ہوتی ہے۔