أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۖ فَإِن يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗ وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے، سو اگر اللہ چاہے توتیرے دل پر مہر کر دے اور اللہ باطل کو مٹا دیتا ہے اور حق کو اپنی باتوں کے ساتھ ثابت کردیتا ہے، یقیناً وہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : سابقہ آیات میں ظالموں کی سزا اور نیک لوگوں کی جزا کا ذکر ہوا۔ اب یہ اعلان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ باطل کو مٹائے گا اور حق کو حق ثابت کر دکھائے گا۔ وہ جانتا ہے کون حق کو قبول کرتا ہے اور کون اس کا انکار کرتا ہے۔ وہ لوگوں کے سینے کے راز جانتا ہے۔ نبی کریم (ﷺ) کے بارے میں کفار اچھی طرح جانتے تھے کہ آپ (ﷺ) نے نبوت سے پہلے بھی نہ کسی کے ساتھ غلط بیانی کی اور نہ ہی کسی معاملے میں آپ سے کوئی خیانت سرزد ہوئی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو قبل از نبوت بھی ہر قسم کے عیب سے پاک رکھا۔ جس کا اہل مکہ برملا اعتراف کرتے تھے۔ اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود کفار آپ (ﷺ) پر الز ام لگاتے کہ آپ قرآن اور نبوت کے نام پر اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بول رہے ہیں۔ جس کی تردید کرتے ہوئے اس موقع پر اللہ تعالیٰ کفار کے الزام کا یوں جواب دیتا ہے۔ کہ اگر محمد (ﷺ) اللہ پر جھوٹ بولتے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل پر گمراہی کی مہر لگا دیتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا بہت بڑا ظلم ہے۔ جس کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے نبی (ﷺ) کو براہ راست یہ الفاظ کہے گئے ہیں کہ اگر اللہ چاہے تو آپ کے دل پر مہر لگا دے۔ اس ارشاد سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ نبی اکرم (ﷺ) کا وجود ہی نہیں بلکہ دل بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں تھا اور یہی نبی اکرم (ﷺ) کا فرمان ہے کہ تمام انسانوں کے قلوب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جس طرح چاہتا ہے لوگوں کے دلوں کو پھیر دیتا ہے۔ اسی عقیدہ کی بنیاد پر آپ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے دلوں کو پھیرنے والے ! میرے دل کو ہدایت پر قائم فرما ! یہاں یہ حقیقت بھی بتلائی ہے کہ اگر نبی کریم (ﷺ) بھی قرآن مجید میں کمی بیشی کرتے تو اللہ تعالیٰ آپ (ﷺ) کو بھی سزا دیتا۔ جس کے نتیجہ میں آپ (ﷺ) کے دل پر مہر لگا دی جاتی۔ کسی کے دل پر گمراہی کی مہرلگنا سب سے بڑی سزا ہے۔ کیونکہ یہ رب ذوالجلال کی ناراضگی کی انتہا ہے۔ اسی لیے تو کفار کے بارے میں کہا گیا ہے ﴿خَتَمَ اللّـٰهُ عَلٰى قُلُوْبِـهِـمْ وَعَلٰى سَمْعِهِـمْ وَعَلٰى اَبْصَارِهِـمْ غِشَاوَةٌ وَّلَـهُـمْ عَذَابٌ عَظِـيْمٌ﴾ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے عظیم عذاب ہے۔“ (البقرۃ:7) اس لیے ارشاد فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ باطل کو ایک حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ جب باطل اس کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے بڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے مٹا دیتا ہے اور حق کو حق ثابت کردکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز تک جاننے والا ہے۔ ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ لاََخَذْنَا مِنْہُ بالْیَمِیْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ﴾ [ الحاقۃ: 44تا46] ” اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت کوئی جھوٹی بات بنا دیتے تو ہم ان کے دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اس کی شہ رگ کاٹ ڈالتے۔“ مسائل : 1۔ اگر نبی کریم (ﷺ) قرآن مجید میں ترمیم و اضافہ کرتے تو اللہ تعالیٰ آپ (ﷺ) کے دل پر مہر لگا دیتا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ بالآخر باطل کو مٹا کر حق کو حق کردکھاتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ تعالیٰ باطل کو مٹا کر حق کو حق ثابت کردیتا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے قوم کو غرقاب کرکے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو حق کر دکھایا۔ (ھود :48) 2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے بچا کر حق کو حق کر دکھایا۔ (الانبیاء : 69، 70) 3۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادو گروں کے مقابلے میں کامیاب فرما کر حق کو حق کردکھایا۔ (یونس :82) 4۔ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے موقعہ پر نبی (ﷺ) کو بچا کر حق کو بلند کر فرمایا۔ ( التوبۃ:40)