أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
یا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلہ شدہ بات نہ ہوتی تو ضرور ان کے درمیان فیصلہ کردیا جاتا اور بے شک جو ظالم ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا ان لوگوں میں سرفہرست مشرک ہیں۔ ” اَلدِّیْنِ“ اللہ تعالیٰ کے احکام اور نبی (ﷺ) کے ارشادات پر مبنی ہے۔ جس میں زندگی گزارنے کا مکمل ضابطہ دیا گیا ہے۔ اس میں کسی چھوٹے، بڑے، نیک اور بد یہاں تک کہ نبی (ﷺ) کو بھی یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ آپ (ﷺ) اس میں اپنی مرضی سے بال برابر بھی کمی بیشی کرسکیں۔ آپ نے جو کچھ فرمایا اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق ارشاد فرمایا۔ اس قدر واضح اور ٹھوس اصول ہونے کے باوجود مشرکین نے کچھ لوگوں کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ دین کے نام پر جو چاہیں مسائل بناتے اور چلاتے رہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہاں شرکاء سے پہلی مراد وہ لوگ ہیں جو حکمرانوں یا پارلیمنٹ کو اکثریت کی نمائندہ ہونے کی بنیاد پر آئین سازی کا اختیار دیتے ہیں۔ جس بنا پر مسلمان ملکوں کی پارلیمنٹوں اور حکمرانوں نے اسلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس میں ماضی، حال کے وہ علماء اور پیر بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے فتویٰ اور فرمان کو شریعت بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا اور لوگوں نے اسے عقیدت کی بنیاد پر ٹھنڈے دل سے قبول کرلیا۔ جس طرح غیر اسلامی قانون بنانے والے رب کے شریک بن بیٹھے ہیں اسی طرح انہیں خاموشی سے قبول کرنے والے بھی ایک حد تک شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ گویا کہ دونوں فریق اپنے اپنے مقام پر شرک فی الحکم میں ملوث ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے فیصلے کا ایک وقت مقرر نہ کر رکھا ہوتا تو ان کا جرم اتنا بھاری تھا کہ انہیں نیست ونابود کردیا جاتا۔ ظالموں کے لیے آخرت میں اذیت ناک عذاب ہوگا اس لیے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو حاکمِ کل تسلیم کرنے کی بجائے دوسروں کو بھی اس کی حاکمیّت میں شریک کر رکھا ہے۔ اس ظلم کا نتیجہ ہے کہ ظالم کو پکڑنے والا اور مظلوم کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ (عَنْ عَدِیِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ أَتَیْتُ النَّبِی (ﷺ) وَفِی عُنُقِی صَلِیبٌ مِنْ ذَہَب فَقَالَ یَا عَدِیُّ اطْرَحْ عَنْکَ ہَذَا الْوَثَنَ وَسَمِعْتُہُ یَقْرَأُ فِی سُورَۃِ بَرَاءَ ۃَ ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُون اللَّہِ﴾ قَالَ أَمَا إِنَّہُمْ لَمْ یَکُونُوا یَعْبُدُونَہُمْ وَلَکِنَّہُمْ کَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَہُمْ شَیْئًا اسْتَحَلُّوہُ وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَیْہِمْ شَیْئًا حَرَّمُوہُ) [ رواہ الترمذی : باب وَمِنْ سُورَۃِ التَّوْبَۃِ] ” حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی معظم (ﷺ) کے پاس آیامیری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی آپ نے فرمایا اس بت کو پھینک دو۔ میں نے سنا آپ (ﷺ) سورۃ برأۃ کی تلاوت فرما رہے تھے (اِتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُون اللَّہِ) (میں نے عرض کیا کہ ہم انہیں رب نہیں مانتے) آپ (ﷺ) نے فرمایا ایسا نہیں کہ وہ ان کی عبادت نہیں کرتے لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال کہتے ہیں تو یہ اس کو حلال سمجھتے ہیں۔ جب وہ کسی چیز کو حرام قرار دیتے ہیں تو وہ اس کو حرام جانتے ہیں۔“ مسائل : 1۔ ظالمو! نے دین میں ملاوٹ کرکے دوسروں کو اللہ کا شریک بنا لیا ہے۔ 2۔ اللہ کے قانون کے سوا دوسروں کا قانون ماننا اور چلانا اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو شریک بنانا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنی حاکمیت میں دوسروں کو شریک کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ 4۔ دوسروں کا قانون بنانے اور چلانے والے ظالم ہیں۔ ظالموں کے لیے اذیت ناک عذاب ہوگا۔ تفسیربالقرآن : ” اللہ“ کے قانون کے علاوہ قانون بنانے اور اسے ماننے والے ظالم ہیں : 1۔ اللہ تعالیٰ نے جو کتاب آپ پر نازل کی ہے آپ لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کریں۔ (المائدۃ:48) 2۔ جو کتاب اللہ کے بغیر اپنی مرضی سے فیصلہ کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے راستے سے بھٹک جائے گا۔ (ص :26) 3۔ قانون الٰہی کے خلاف فیصلہ دینے والے فاسق ہیں۔ (المائدۃ:47) 4۔ جو قانون الٰہی کے خلاف فیصلہ کرتا ہے وہ کافر ہے۔ (المائدۃ:44) 5۔ جو قانون الٰہی کے خلاف فیصلہ کرے وہ ظالم ہے۔ (المائدۃ:45)