وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
اور وہ چیز جس میں تم نے اختلاف کیا، کوئی بھی چیز ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے، وہی اللہ میرا رب ہے، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ نے انسان کو فکر و عمل کا اختیار دینے کے باوجود حکم فرمایا ہے کہ وہ ہر حال میں اس کے حکم کی پیروی کرے۔ اور اس کی ذات پر بھروسہ کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فکرو عمل کی آزادی عطا فرمائی ہے۔ جس وجہ سے لوگوں کی فکر اور عمل میں تضاد اور اختلاف پایا جاتا ہے۔ دین میں اختلاف اس وقت رونما ہوتا ہے جب کوئی شخص بالخصوص عالم دین اپنی ذاتی رائے کو حرف آخر سمجھ لیتا ہے۔ اگر اس کی سوچ دین کے بنیادی اصولوں کے خلاف نہ ہو اور اس اختلاف کے پیچھے دینوی مفاد اور فرقہ واریت ہونے کی بجائے اخلاص ہو تو اس اختلاف کے نقصانات تھوڑے ہوتے ہیں اور اس کی ایک حد تک دین میں گنجائش بھی موجود ہے۔ اگر یہ اختلاف عقیدہ توحید، رسالت اور آخرت یعنی دین کے بنیادی اصولوں میں پایا جائے تو اس کے نقصانات ناقابل تلافی ہوتے ہیں۔ جس کا پہلا نقصان یہ ہے کہ آدمی دین سے نکل کر دائرہ کفر میں داخل ہوجاتا ہے۔ اختلاف بنیادی ہویا فروعی، معاشی ہو یا معاشرتی، سیاسی ہویا سماجی، انفرادی ہو یا اجتماعی بیشک اختلاف حاکم اور محکوم کے درمیان کیوں نہ ہو ہر کسی کے لیے حکم ہے کہ اس کا حل اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق کیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی سب کا خالق اور مالک ہے۔ یہی سرور دو عالم (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ اپنے مخالفوں کو بتلائیں اور سمجھائیں کہ جس بات میں تم میرے ساتھ اختلاف کررہے ہو۔ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کرنے والا ہے۔ وہ میرا خالق ہے اسی پر میں بھروسہ کرتاہوں اور ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرنے والاہوں۔ میرا رب چاہے گا تو دنیا میں ہی میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کردے گا۔ اگر دنیا میں فیصلہ نہ ہوا تو آخرت میں بہرحال یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ کون ہدایت پر تھا اور کون گمراہی میں مبتلا تھا۔ مومن کو ہر حال میں اپنے رب پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اسی کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ قرآن مجید نے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارے درمیان کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول اور اپنے امیر کی طرف لوٹاؤ۔ (النساء : 59) کیونکہ اصل حاکم اللہ کی ذات ہے اس لیے یہاں اللہ تعالیٰ نے صرف اپنا نام لیا ہے اگر اس حکم سے مراد قیامت کے متعلق حکم لیا جائے تو وہاں صرف ایک ” اللہ“ کا ہی حکم چلے گا۔