قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ
بلاشبہ تم سے پہلے بہت سے طریقے گزر چکے، سو زمین میں چلوپھرو، پھر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ؟
فہم القرآن : (آیت 137 سے 138) ربط کلام : اگر لوگ گناہوں سے بچنے‘ جنت میں داخل ہونے‘ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس سے معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں تو ظالم کو اپنی عارضی کامیابی پر اترانا نہیں چاہیے کیونکہ اس کا انجام برا ہی ہوا کرتا ہے۔ اُحد کی عارضی فتح پر کفار نے بڑے گھمنڈ اور غرور کا مظاہرہ کیا۔ ابو سفیان نے نعرہ لگاتے ہوئے کہا ’ ہبل زندہ باد‘ پھر اس نے احد کے معرکہ کو بدر کا بدلہ قرار دیا جس پر رسول اللہ (ﷺ) نے اپنے قریبی ساتھیوں کو حکم دیا کہ اس کا فوری جواب دیا جائے۔ چنانچہ صحابہ نے جواباً نعرہ لگایا : ( اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ) ” اللہ بلند و بالا اور عظمت والا ہے“ حضرت عمر (رض) نے یہ بھی فرمایا کہ احد بدر کا بدلہ نہیں ہوسکتا کیونکہ تمہارے مرنے والے جہنم کا ایندھن بنے اور ہمارے شہیدجنت کے مہمان قرار پائے ہیں۔ [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب غزوۃ أحد] اس پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن مجید ظالموں کو حکم دیتا ہے کہ اگر تم تاریخ کے اوراق سے بے بہرہ ہو تو ذرا ان جگہوں اور مقامات کو نگاہ عبرت سے دیکھوجہاں ظالموں کو تباہ وبرباد کیا ہے کہ پیغمبروں کو جھٹلانے‘ شریعت کو ٹھکرانے اور اللہ سے ٹکرانے والوں کا کیا انجام ہوا؟ اے اہل کفر! تمہارا انجام بھی ایسا ہی ہونے والا ہے۔ چنانچہ ٹھیک اگلے سال غزوۂ احزاب میں کافر ذلیل ہوئے۔ ٨ ہجری میں اہل مکہ اس طرح سرنگوں ہوئے کہ بیت اللہ میں سب کے سامنے رسول معظم (ﷺ) سے معافی کے خواستگار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کے تخت الٹ گئے یہاں تک کہ ہندوستان کی سرزمین پر راجہ داہر جیسا ظالم محمد بن قاسم (رح) کے ہاتھوں جہنم واصل ہوا۔ اس طرح کفار اور کذاب لوگوں کا عبرت انگیز انجام ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ رہنمائی حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے تاریخ کے اوراق ہمیشہ کے لیے رقم ہوچکے ہیں جن سے عبرت حاصل کرنا چاہیے۔ مسائل : 1۔ جھوٹے لوگوں کا انجام دیکھنے کے لیے ان کی اجڑی ہوئی بستیوں کو دیکھنا چاہیے۔ 2۔ یہ تاریخی واقعات گناہوں سے بچنے والوں کے لیے عبرت اور نصیحت ہیں۔