تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِن فَوْقِهِنَّ ۚ وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَن فِي الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
آسمان قریب ہیں کہ اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں اور فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو زمین میں ہیں، سن لو! بے شک اللہ ہی بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ اس قدر بلند وبالا اور عظیم تر ہے کہ وہ چاہے تو منکرین قرآن پر آسمان گرا دے۔ وہ ایسا اس لیے نہیں کرتا کیونکہ وہ غفور الرّحیم ہے۔ منکرین حق قرآن مجید کا اس لیے انکار کرتے ہیں کہ وہ نبی (ﷺ) کی رسالت کو نہیں مانتے۔ نبی (ﷺ) کی رسالت اور قرآن مجید کا انکار کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ہے۔ اس لیے کہ نبی (ﷺ) نے دعویٰ نبوت اپنی طرف سے نہیں کیا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) سے یہ اعلان کروایا اور آپ پر قرآن نازل فرمایا۔ اس لیے قرآن اور نبی (ﷺ) کا انکار کرنا ربِّ ذوالجلال کو (خاکم بدھن) جھوٹا کہنے کے مترادف ہے۔ یہ اتنا سنگین گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ درگزر نہ فرماتا تو قریب تھا اور ہے کہ منکرین قرآن پر آسمان پھٹ پڑے اور اللہ کے ملائکہ اتر پڑیں۔ جو ہر وقت اپنے رب کی شان کے لائق اس کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں اور ہر دم اہل زمین کے لیے اپنے رب کے حضور معافی کی درخوست کرتے ہیں، جس بنا پر اللہ تعالیٰ قرآن اور رسالت کے منکرین سے درگزر کرتا ہے۔ مجرموں کو یاد ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بار بار معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ فرشتوں کے نازل کرنے کا مقصد مجرموں کو عذاب دینا یا پھر قیامت برپا کرنا ہے۔ حمد کی عظمت : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ إِلَی الرَّحْمَنِ، خَفِیْفَتَانِ عَلَیْ اللِّسَانِ، ثَقِیْلَتَانِ فِیْ الْمِیْزَانِ سُبْحَان اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ، سُبْحَان اللَّہِ الْعَظِیمِ ) [رواہ البخاری : کتاب التوحید ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا دو کلمے رحمٰن کو بڑے پسند ہیں، زبان سے ادا کرنے میں آسان اور وزن کے لحاظ سے بھاری ہیں۔“ (عَنْ اَبِیْ مَالِکِ الْاَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاُ الْمِیْزَانَ وَسُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَاٰنِ اَوْ تَمْلَأُ مَا بَینَ السَّمٰوٰتِ وَالاْرَضِ) [ رواہ مسلم : باب فَضْلِ الْوُضُوءِ] حضرت ابومالک اشعری (رض) رسول اکرم (ﷺ) کا فرمان ذکر کرتے ہیں کہ پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے‘ ” الحمدللہ“ کے الفاظ میزان کو بھر دیتے ہیں۔ ” سبحان اللہ“ اور ” الحمدللہ“ دونوں کلمے زمین و آسمان کو بھر دیتے ہیں۔ استغفار کی فضیلت : ” حضرت ابو سعید خدری (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا بنی اسرائیل میں ایک شخص نے ننانوے قتل کیے تھے۔ پھر توبہ کے لیے ایک راہب کے پاس پہنچا اور اس سے پوچھا۔ کیا اس کی توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ راہب نے جواب دیا نہیں اس نے اسے بھی قتل کردیا۔ پھر وہ مسئلہ پوچھنے کے لیے دوسرے عالم کے پاس گیا، اس شخص نے اسے ایک بستی کی طرف رہنمائی کی۔ راستے میں اس کو موت نے آلیا تو وہ اپنے سینے کے بل اس بستی کی طرف گرا۔ اس شخص کے بارے میں رحمت اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو حکم دیا کہ مرنے والے کے قریب ہوجائے اور چھوڑی ہوئی بستی کو اس سے دوری کا حکم دیا۔ پھر دونوں کے درمیان فاصلہ ناپنے کا حکم ہوا۔ مرنے والا منزل مقصود کے بالشت بھر قریب پا یا گیا اس لیے اس کو معاف کردیا گیا۔“ [ رواہ البخاری : باب حدیث الغار] مسائل : 1۔ قریب ہے کہ منکرین قرآن پر آسمان ٹوٹ پڑے یا فرشتے اتر پڑیں۔ 2۔ ملائکہ اپنے رب کی تسبیح پڑھنے کے ساتھ اہل زمین کے لیے بخشش مانگتے ہیں۔ 3۔ یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بڑا رحیم ہے۔ تفسیربالقرآن : استغفار کی برکات : 1۔ حضرت یونس کی قوم کے سوا کسی قوم کو عذاب کے وقت ایمان لانے کا فائدہ نہ ہوا۔ (یونس : 98) 2۔ اللہ سے بخشش طلب کیجیے یقیناً وہ معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔ (النساء : 106) 3۔ اگر تم استغفار کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بہتر صلہ دے گا۔ (ہود : 3) 4۔ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو اور اس کی طرف رجوع کرو میرا رب رحم کرنے اور شفقت فرمانے والا ہے۔ (ہود : 90) 5۔ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو یقیناً وہ بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ (المزمل : 20)