أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَاءِ رَبِّهِمْ ۗ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ
سنو! یقیناً وہ لوگ اپنے رب سے ملنے کے بارے میں شک میں ہیں۔ سن لو! یقیناً وہ ہر چیز کا احاطہ کرنے والا ہے۔
فہم القرآن : ربط کلام : کفار اپنے رب کی قدرتیں دیکھنے کے باوجود اس کی ذات اور ملاقات سے انکار کرتے ہیں۔ انسان کا ذہن آخرت کے فکرسے خالی ہوجائے تو وہ بڑے سے بڑے حقائق اور دلائل کو ٹھکراتا چلا جاتا ہے۔ یہی حالت اہل مکہ کی تھی۔ ان کے سامنے اللہ کی الوہیّت کے دلائل پیش کیے جاتے تو وہ انہیں مسترد کردیتے۔ نبی (ﷺ) کی رسالت کا ثبوت دیا جاتا تو وہ مذاق کا نشانہ بناتے۔ فکر آخرت کی بات ہوتی تو اہل مکہ یہ کہہ کر انکار کرتے کہ جب انسان مر کر مٹی کے ساتھ مٹی ہوجائے گا تو اسے کس طرح دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے ؟ ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ دیکھیں یہ لوگ کس طرح اپنے رب کی ملاقات کے بارے میں متردّد اور شک کا شکار ہیں۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ جو رب انہیں آفاق اور ان کے نفوس میں اپنی قدرتیں دکھلاتا ہے۔ جنہیں دیکھ کر یہ لوگ بے بس ہوجاتے ہیں اور اکثر مرتبہ ان کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ پھر غور کرو! کہ جس نے زمین و آسمان، صحراء، دریا، شجرو حجر اور انسان کو پیدا کیا۔ کیا وہ انسان کو مارنے کے بعد اسے زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے ؟ بلاشبہ وہ اس بات پر قادرہے اور اس نے انسان کو ہر حالت میں دوبارہ زندہ کرنے کے بعد اپنی بارگاہ میں حاضر کرنا ہے۔ کوئی اس کا اقرار کرے یا انکار کرے اللہ تعالیٰ ایسا کرنے پر قادر ہے۔ کیونکہ اس نے اپنے علم، اختیار اور اقتدار کے حوالے سے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ انسان جل کر مرے یا پانی میں تحلیل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ ہر صورت اسے اپنے حضور حاضر کرے گا۔ مسائل : 1۔ آخرت کے منکرکے پاس کوئی عقلی اور نقلی دلائل موجود نہیں۔ 2۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے اس کی اپنے رب کے ساتھ ملاقات ضرور ہوگی۔ 3۔ یقین کریں! کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔