لَّا يَسْأَمُ الْإِنسَانُ مِن دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ
انسان بھلائی مانگنے سے نہیں اکتاتا اور اگر اسے کوئی برائی آپہنچے تو بہت مایوس، نہایت ناامید ہوتا ہے۔
فہم القرآن : (آیت49سے51) ربط کلام : مشرک کے شرک کی بنیادی وجہ مفاد پرستی اور جلد بازی کرنا ہے۔ مشرک کی طبیعت میں مفاد پرستی اور جلد بازی کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے۔ مشرک دنیا کے بارے میں بڑا حریص ہوتا ہے۔ مشرک اور دنیا پرست انسان معمولی آزمائش اور نقصان برداشت نہیں کرسکتا۔ ہمیشہ دنیا کے لیے ہی دعائیں کرتارہتا ہے۔ (البقرۃ: 200) مشرک کو تکلیف پہنچے اور اس کی دعا جلد قبول نہ ہو تو یہ اپنے رب سے ہی مایوس ہوجاتا ہے۔ مایوسی کے عالم میں اسے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نواز دے تو سمجھتا ہے کہ یہ میری کوشش کا نتیجہ ہے۔ بسا اوقات اپنی زبان سے بھی کہتا ہے کہ میری تکلیف اس لیے رفع ہوئی کہ میں نے اس کے لیے بہتر منصوبہ بندی اختیار کی اور ہر وقت اس کا علاج کرلیا ہے۔ مشرکانہ عقیدہ اور دنیا پرستی کی وجہ سے اس کا مستقل ذہن بن جاتا ہے۔ بالخصوص ان لوگوں کا جو کئی نسلوں سے دولت مند ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کانظام اس طرح ہی چلتارہے گا۔ بالفرض اگر قیامت قائم ہوگئی تو وہاں بھی ہمیں دوسروں پر برتری حاصل ہوگی۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمیں طویل سے طویل تر زندگی حاصل ہوجائے۔ یہاں تک کہ ہم ہزار سال زندہ رہیں۔ حالانکہ طویل زندگی انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی (البقرۃ: 96) ایسے انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ملے تو منہ پھیر لیتا ہے اور ناشکری کرتا ہے۔ تکلیف پہنچے تو لمبی لمبی دعائیں کرتا ہے۔ یہ حالت اس شخص کی ہوتی ہے جو رسمی طور پر اسلام کا نام لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو کافر گردانا ہے جنہیں سخت اور شدید عذاب دیا جائے گا۔ (عَنْ خَبَّابٍ (رض) قَالَ کُنْتُ قَیْنًا بِمَکَّۃَ، فَعَمِلْتُ لِلْعَاصِ بْنِ وَائِلِ السَّہْمِیِّ سَیْفًا، فَجِئْتُ أَتَقَاضَاہُ فَقَالَ لاَ أُعْطِیکَ حَتَّی تَکْفُرَ بِمُحَمَّدٍ قُلْتُ لاَ أَکْفُرُ بِمُحَمَّدٍ (ﷺ) حَتَّی یُمِیتَکَ اللَّہُ، ثُمَّ یُحْیِیَکَ قَالَ إِذَا أَمَاتَنِی اللَّہُ ثُمَّ بَعَثَنِی، وَلِی مَالٌ وَوَلَدٌ فَأَنْزَلَ اللَّہُ İأَفَرَأَیْتَ الَّذِی کَفَرَ بآیَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَیَنَّ مَالاً وَوَلَدًا أَطَّلَعَ الْغَیْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَہْدًاĬ)[ رواہ البخاری : کتاب التفسیر، باب قَوْلِہِ İأَطَّلَعَ الْغَیْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَہْدًا Ĭ] ” حضرت خباب (رض) کہتے ہیں کہ میں مکہ میں لوہار تھا۔ میں نے عاص بن وائل سھمی کے لیے تلوار بنائی۔ اس کے پاس مزدوری لینے کے لیے گیا۔ تو اس نے کہا میں اس وقت تک تجھے تیری اجرت نہیں دوں گا جب تک تو محمد (ﷺ) کی رسالت کا انکار نہ کردے۔ میں نے کہا اللہ تجھے موت دے پھر زندہ کرے میں پھر بھی محمد (ﷺ) کی نبوت کا انکار نہیں کروں گا۔ اس نے کہا۔ جب اللہ تعالیٰ میری موت کے بعدمجھے زندہ کرے گا تو اس وقت بھی میرے پاس مال ہوگا لہٰذا میں قیامت کے دن تیری مزدوری ادا کردوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل فرمائی کہ کیا اسے غیب کا علم ہے یا اس نے اللہ تعالیٰ سے معاہدہ کر رکھا ہے کہ اسے آخرت میں بھی اچھا مقام اور مال دیا جائے گا۔“ دنیا دار کے مقابلے میں مؤمن کا کردار : (عَنْ صُہَیْبٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ إِنَّ أَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ) [ رواہ مسلم : کتاب الزہد والرقائق، باب المؤمن أمرہ کلہ خیر] ” حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا مومن کے معاملات عجیب ہیں۔ اس کے تمام معاملات میں خیر ہے اور یہ صرف مومن کے لیے ہے اگر اس کو آسانی ملتی ہے تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے یہ اسکے لیے بہتر ہے اور اگر اسے تنگدستی آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔“ مسائل : 1۔ مشرک اور کافر دنیا کے معاملے میں بڑا حریص ہوتا ہے۔ 2۔ دنیا دار شخص تکلیف کے وقت اپنے رب سے مایوس ہوجاتا ہے۔ 3۔ دنیا دار شخص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر حاصل ہو تو وہ اسے اپنی لیاقت سمجھتا ہے۔ 4۔ دنیا پرست انسان کو اللہ تعالیٰ سخت عذاب دے گا۔ تفسیربالقرآن : دنیا پرست انسان کا انجام : 1۔ جو لوگ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کرتے ہیں یہ دور کی گمراہی میں ہیں۔ (ابراہیم : 3) 2۔ جن لوگوں کو دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال رکھا، قیامت کے دن ہم ان کو بھلا دیں گے۔ (الاعراف : 51) 3۔ یہی ہیں وہ لوگ جنہوں نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی بے شک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (النحل : 107) 4۔ جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیا کو ترجیح دی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (الناز عات : 37 تا 39) 5۔ دنیا چاہنے والوں کو دنیا اور آخرت چاہنے والوں کو آخرت ملتی ہے۔ (آل عمران : 145)