الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
جو خوشی اور تکلیف میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جانے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 134 سے 136) ربط کلام : سود اور جہنم سے بچنے کا حکم، جنت اور صدقہ کی ترغیب دینے کے بعد جنّتیوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں جنتیوں کے چھ اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے۔ 1 یہ لوگ عسر ویسر میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں۔ 2 طیش اور غضب کی حالت میں اپنے آپ پر ضبط رکھتے ہیں۔ 3 ساتھیوں اور بھائیوں کے ساتھ معافی کا وطیرہ اختیار کرتے ہیں۔4 جب ان سے بری حرکت یا گناہ کی صورت میں اپنے آپ پر زیادتی ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا احساس، اس کے عذاب کا خوف اور اس کی ذات کبریا کا تصور کرتے ہوئے اس کے حضور اپنے گناہوں اور خطاؤں کی معافی مانگتے ہیں۔ 5 اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں 6 وہ ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے گناہوں پر اترانے اور اصرار کرنے پر تیار نہیں ہوتے کیونکہ گناہوں کے نتائج اور نقصانات کو وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ نیک لوگ منصوبہ بندی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب نہیں کرتے اور نہ ہی وہ شیطان کی طرح اپنی غلطی پر اصرار کرتے ہیں۔ وہ تو اپنی غلطی کا اعتراف اور اس پر استغفار کرتے ہیں۔ ان کا صلہ ان کے رب کے ہاں بخشش اور جنت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ لوگ بہترین اجر پائیں گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ: لَیْسَ الشَّدِیْدُ بالصُّرْعَۃِ إِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کسی کو پچھاڑنے والا طاقتور نہیں ہے طاقتور تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے۔“ ” نبی کریم (ﷺ) کے صحابی سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) کے پاس دو آدمیوں کا جھگڑا ہوا۔ ایک آدمی ان میں اتنا غضبناک ہوا کہ اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ آپ نے فرمایا میں ایک کلمہ جانتا ہوں اگر وہ پڑھ لے تو اس کا ساراغصہ ختم ہوجائے۔ ایک آدمی نے اسے جاکر رسول اللہ (ﷺ) کی بات بتائی اور کہا کہ شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ اس نے جوابًا کہا کیا مجھ میں کوئی بیماری نظر آرہی ہے یا میں مجنون ہوں؟ چل تو چلاجا۔“ ( اس کا مقصد یہ تھا کہ آپ کا فرمان سن کر میں اپنے غصہ پر ضبط کرتا ہوں) [ رواہ البخاری : کتاب الأدب] مسائل : 1۔ مسلمانوں کو اپنے رب کی بخشش اور جنت کے حصول کی کوشش کرنا چاہیے۔ 2۔ جنت کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے جو گناہوں سے بچنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ 3۔ ایمان دار لوگ آسانی اور تنگی میں خرچ کرنے والے، غصہ پر ضبط کرنے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہوتے ہیں۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نیکو کار لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ 5۔ ایمان والے اپنے آپ پر ظلم یا بے حیائی کا ارتکاب کر بیٹھیں تو اللہ کو یاد کرتے اور اس سے معافی مانگتے ہیں۔ 6۔ صاحب ایمان لوگ اپنی غلطی پر اصرار نہیں کرتے۔ 7۔ اللہ کے بغیر کوئی گناہ معاف کرنے والا نہیں۔ 8۔ معافی مانگنے والوں کے لیے ان کے رب کی طرف سے بخشش اور جنت ہے۔ تفسیر بالقرآن : جنت کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے : 1۔ اللہ کی مغفرت اور جنت کی کوشش کرو۔ (الحدید :21) 2۔ نیکی کے حصول میں جلدی کرو۔ (البقرۃ:148) 3۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے اعلیٰ ہوں گے۔ (فاطر :32) 4۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعہ : 10، 11 )