وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ
اور اس نے اس میں اس کے اوپر سے گڑے ہوئے پہاڑ بنائے اور اس میں بہت برکت رکھی اور اس میں اس کی غذائیں اندازے کے ساتھ رکھیں، چار دن میں، اس حال میں کہ سوال کرنے والوں کے لیے برابر (جواب) ہے۔
فہم القرآن : (آیت10سے12) ربط کلام : مشرک اور کافر جس حقیقی الٰہ کے ساتھ شرک اور کفر کرتے ہیں صرف اسی ایک ذات نے زمین و آسمانوں اور پہاڑوں کو بنایا ہے۔ کیا کوئی ہستی ہے ؟ جس نے یہ کام کیے ہوں؟ قرآن مجید نے یہ بات بھی بار ہا دفعہ بتلائی ہے کہ زمینوں آسمانوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے بنانے میں کوئی اللہ تعالیٰ کا شریک تھا۔ اس لیے یہاں کفار سے استفسار کیا گیا ہے کہ کیا تم اس ذات کبریا کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دویوم میں پیدا فرمایا۔ تم بتوں، بزرگوں اور دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ حالانکہ تمام جہانوں کا پیدا کرنے والا ایک ” اللہ“ ہی عبادت کے لائق ہے۔ اسی نے زمین پر پہاڑ بنائے اور زمین میں برکت پیدا فرمائی اور اس میں ہر قسم کا معیشت کا سامان رکھا۔ جو ضرورت مندوں کے لیے برابر ہے۔ اے نبی (ﷺ) جنہوں نے آپ سے سوال کیا ہے ان کا یہ جواب ہے۔ یہودیوں کا ایک وفد آپ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہو کر زمین و آسمانوں کے بارے میں سوال کرتا ہے جس کے جواب میں آپ (ﷺ) نے فرمایا کہ زمین اتوار اور پیر کے دن، پہاڑ اور جو کچھ ان میں معدنیات ہیں انہیں منگل کے دن، درخت، دریا، سمندر اور صحراء وغیرہ بدھ کے دن بنائے گئے اس طرح یہ نظام چار دن میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان بنانے کا ارادہ فرمایا جو دھویں کی شکل میں تھا۔ زمین اور آسمان کو حکم صادر فرمایا کہ خوشی یا نا خوشی سے میرے پاس حاضر ہوجاؤ۔ زمینوں اور آسمانوں نے عرض کی کہ ہم بڑی خوشی کے ساتھ آپ کے حضور حاضر ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دو دن میں آسمان بنائے اور ہر آسمان میں جو کچھ پیدا فرمایا اسے حکم دیا کہ تو نے یہ یہ کام سرانجام دینے ہیں۔ پھر آسمان دنیا کو ستاروں سے مزیّن فرمایا اور شیطانوں سے اس کی حفاظت کا بندوبست کیا۔ اس نظام کو صرف ” اللہ“ غالب جاننے والے نے ہی اپنی مرضی سے بنایا اور پوری طرح مربوط کیا ہے۔ پہلی آیت میں یہ ذکر ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان بنانے کا ارادہ فرمایا تو زمین اور آسمان کو حکم دیا کہ خوشی یا نا خوشی شے میرے پاس حاضر ہوجاؤ۔ گویا کہ یہ شاہی فرمان تھا کہ تم چاہو یا نہ چاہو بہرحال تمہیں یہ کام کرنا ہوگا۔ ان الفاظ میں بین السطور اللہ تعالیٰ کی رفعت وجلالت کا پتہ چلتا ہے۔ زمین و آسمان سے مراد ان کا میٹریل ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے پہلے حکم پر معرض وجود میں آچکا تھا۔ جس کی موجودہ زمانے کے کچھ سائنسدان بھی تائید کرتے ہیں۔ اس کا دوسرا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں ہر چیز کا ذخیرہ فرمادیا تاکہ زمین میں رہنے والی مخلوق قیامت تک اپنی ضرورت پوری کرتی رہے گی۔ اس میں پہاڑ، سمندر، صحراء اور ہر چیز شامل ہے اس میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا۔ کہ کسی ایک علاقے کی بجائےمختلف چیزوں کو زمین کے مختلف طبقات میں رکھا جائے تاکہ تمام لوگ ایک دوسرے کے محتاج ہوں اور آپس میں رابطہ رکھنے کی ضرورت محسوس کرتے رہیں۔ اس لیے سائلین کا معنٰی حاجت مند بھی کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین، سمندر اور پہاڑوں میں اس طرح خزانے چھپادئیے ہیں کہ ہر دور کے انسان اپنی کوشش اور صلاحیت کے مطابق نکالتے رہیں گے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دنوں میں تخلیق فرمایا۔ 2۔ اللہ نے زمین کی تخلیق کے بعد اس میں پہاڑ جما دیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو دو دنوں میں پیدا کیا۔ 4۔ زمین و آسمانوں میں اللہ کا ہی حکم چلتا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے انسان اور ہر جاندار کے لیے زمین، پہاڑ اور سمندر میں رزق رکھ کر اس میں برکت پیدا کردی ہے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کیا اور اس سے آسمان کی حفاظت کا بندوبست بھی فرمایا ہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن :اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے : 1۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم : 20) 2۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر : 2) 3۔ اللہ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین : 4) 4۔ اللہ نے ایک ہی جان سے سب انسانوں کو پیدا کیا۔ (الاعراف : 189) 5۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ: 22) 6۔ اللہ ہی پیدا کرنے والاہے اور اس کا ہی حکم چلنا چاہیے۔ (الاعراف : 54) 7۔ لوگو اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ (النساء : 1) 8۔ اللہ تعالیٰ ہی رازق ہے۔ (الذاریات : 58) 9۔ اللہ ہی رزق فراخ کرتا اور کم کرتا ہے۔ (ا لسباء : 39) 10۔ اللہ تعالیٰ لوگوں سے رزق طلب نہیں مانگتا بلکہ وہ لوگوں کو رزق دیتا ہے۔ (طٰہٰ : 132)