م
حۤم۔
فہم القرآن : (آیت1سے3) سورۃ المومن کا خاتمہ اس بات پر ہوا تھا کہ باطل پر اصرار کرنے والے بالآخرنقصان اٹھائیں گے۔ سورۃ حٰمٓ سجدہ کا آغاز اس بات سے ہورہا ہے کہ اگر دنیا اور آخرت کے نقصان سے بچنا چاہتے ہو تو رب رحمٰن کی اتاری ہوئی کتاب پر پوری طرح ایمان لاؤ۔ لیکن اکثر لوگ اعراض ہی کیا کرتے ہیں۔ حٰم ٓ حروف مقطعات ہیں۔ جن کے بارے میں قرآن مجید کا فہم رکھنے والا جانتا ہے کہ ان کا معنٰی نبی کریم (ﷺ) سے ثابت نہیں۔ سورۃ حٰمٓ السجدہ کا آغاز لفظ ” تَنْزِیْلٌ“ کے بعد ”اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ“ کی صفات سے ہورہا ہے۔ جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ بے شک تم انکار کرو لیکن یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس قرآن میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں جسے نبی (ﷺ) نے اپنی طرف سے بنایا اور شامل کیا ہو۔ قرآن سارے کا سارا اسی ذات اقدس نے نازل فرمایا ہے۔ جس کی شفقت اور مہربانی کی کوئی انتہا نہیں۔ لوگوں کی مکمل راہنمائی اور سہولت کی خاطر اس کی آیات اپنا مفہوم خود واضح کرتی ہیں۔ یہ عربی زبان میں ہے۔ اس سے وہی لوگ راہنمائی حاصل کریں گے جو صحیح دانست سے کام لیں گے۔ یہاں قرآن مجید کی تین صفات کو کھلے الفاظ میں اور ایک وصف کا اشارتاً ذکر کیا گیا ہے۔ 1 ۔قرآن کے نزول میں کسی بندے یا پوری مخلوق میں سے کسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ 2 ۔اس کی آیات اپنا مدّعا کھول کر بیان کرتی ہیں۔ جس میں حق اور باطل، کھرے اور کھوٹے، نیک اور بد، نفع اور نقصان کے درمیان فرق واضح کردیا گیا ہے۔ 3 ۔قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے جو دنیا کی تمام زبانوں سے زیادہ پُر تاثیر اور جامع زبان ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں کیوں نہیں نازل کیا گیا۔ اس کی تین وجوہات ہیں۔ 1 ۔قرآن نبی اکرم (ﷺ) پر نازل ہوا ہے آپ اپنے اخلاق، کردار اور صلاحیتوں کے اعتبار سے پوری دنیا میں منفرد انسان تھے۔ جیسا نہ کوئی انسان تھا اور نہ ہوگا۔2 ۔نزول قرآن کے وقت عربی تمام زبانوں میں فصیح زبان تھی اور اب بھی ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک رہے گی۔ 3 ۔قرآن مجید کسی اور زبان میں نازل ہوتا تو اعتراض کرنے والے پھر اس زبان پر اعتراض کرتے کیونکہ آپ عربی تھے اس لیے قرآن عربی زبان میں ہے اور ہونا چاہیے تھا۔ 4 ۔قرآن کسی فرشتے، جن اور بندے کی طرف سے نازل نہیں کیا گیا۔ یہ رب رحمن اور الرحیم نے نازل فرمایا ہے۔ جس میں کھلا اشارہ ہے کہ اگر اپنے رب کی شفقت اور مہربانی چاہتے ہو تو اس کی شفقت و مہربانی قرآن کی تعلیم اور اس پر عمل کرنے میں مضمر ہے۔ بالفاظ دیگر یہ قرآن تمہارے رب کی رحمت کا سرچشمہ ہے۔ قرآن کا لفظ تین معانی کے لیے استعمال کیا گیا ہے : 1۔ ایسی کتاب جو بار بار پڑھی جائے کیونکہ قرآن کی تلاوت بار بار اور کثرت کے ساتھ کی جاتی ہے اس لیے اس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کا نام دیا ہے۔ 2۔ جو حوض پانی سے لبالب بھرا ہوا ہو عرب اسے ” قرات الحوض“ کہتے ہیں، اسی سے ہی قرآن کا لفظ لیا گیا ہے۔ یعنی وہ کتاب جو علم معرفت سے لبالب ہے۔ 3۔ قرن کا معنی ملانا ہے، قرآن مجید کے الفاظ اور مضامین آپس میں ملے اور جڑے ہوئے ہیں اس لیے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن مجید نازل فرمایا ہے۔ 2۔ قرآن مجید پیکر رحمت ہے۔ 3۔ قرآن مجید کی آیات بہت ہی واضح ہیں۔ 4۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے۔ تفسیربالقرآن : قرآن مجید کے اوصاف حمیدہ کی ایک جھلک : 1۔ قرآن مجید لاریب کتاب ہے۔ (البقرۃ: 2) 2۔ قرآن مجید رحمت اور ہدایت کی کتاب ہے۔ (لقمان : 3) 3۔ قرآن مجیدلوگوں کے لیے ہدایت و رہنمائی کی کتاب ہے۔ (البقرۃ: 185) 4۔ قرآن مجید بابرکت اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ (الانعام : 92) 5۔ قرآن مجید میں ہدایت واضح کردی گئی ہے۔ (النحل : 89) 6۔ قرآن مجید روشن اور بین کتاب ہے۔ (المائدۃ: 15) 7۔ قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ (یوسف : 3) 8۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے۔ (الشعراء : 192)