بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ حٰمٓ السجدۃ کا تعارف : یہ سورۃ 54آیات اور 6رکوع پر مشتمل ہے۔ مکہ معظمہ اور اس کے گردوپیش میں نازل ہوئی۔ ربط سورۃ: سورۃ المؤمن کا اختتام اس فرمان پر ہوا کہ مجرموں کے پاس جب بھی ان کے رسول واضح دلائل کے ساتھ آئے تو ان کی اقوام نے اپنے علم اور تجربہ پر ناز کرتے ہوئے انبیائے کرام (علیہ السلام) کو استہزا کا نشانہ بنایا۔ اس جرم کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا تو وہ پکار اٹھے کہ ہم ایک اللہ پر ایمان لاتے ہیں لیکن اس وقت ان کا ایمان ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہ ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ وہ عذاب نازل کرنے کے بعد مجرموں کو موقع نہیں دیا کرتا۔ سورۃ حٰم السجدۃ کی ابتداء اس فرمان سے ہو رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی مہربان اور شفقت فرمانے والا ہے۔ اس نے اپنی رحمت کی بنا پر لوگوں کی راہنمائی کے لیے مفصل کتاب نازل فرمائی ہے۔ جس میں برے لوگوں کو انتباہ کیا ہے اور اچھے لوگوں کو خوشخبری کا پیغام دیا ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس طرح اعراض کرتی ہے جس طرح انہوں نے حق بات کو سنا ہی نہیں۔ حٰمٓ سورتوں میں یہ دوسری سورۃ ہے اس کا آغاز قرآن مجید کے تعارفی کلمات سے ہوتا ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ قرآن کی دعوت دو باتوں پر مشتمل ہے۔ جو اس پر ایمان لائیں گے ان کے لیے خوشخبری ہے اور جو اس سے اعراض کریں گے انہیں کھلے الفاظ میں انتباہ کیا جاتا ہے لیکن لوگوں کی اکثریت ہمیشہ اعراض ہی کیا کرتی ہے۔ اس سورۃ کی ابتدا میں نبی (ﷺ) سے یہ کہلوایا گیا ہے کہ آپ لوگوں میں واضح الفاظ میں اعلان کرتے جائیں کہ میں رشتہ انسانی کے اعتبار سے تمہارے جیسا انسان ہوں مگر میرا یہ اعزاز ہے کہ میری طرف وحی آئی ہے کہ میں تمہیں سمجھاؤں اور بتلاؤں کہ تمہارا الٰہ صرف ایک ہے۔ لہٰذا اس بات پر قائم ہوجاؤ۔ ہمیشہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہو اور یاد رکھو جو لوگ اپنے رب کی ذات اور صفات میں کسی دوسرے کو شریک کریں گے ان کے لیے ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔ جو لوگ اپنے رب پر ایمان لائیں گے اور اس کے احکام کو تسلیم کریں گے ان کے لیے ایسا صلہ ہے جس میں کبھی کمی واقع نہیں ہوگی۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرتے ہیں کیا انہوں نے اس بات پر کبھی غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو دو دن میں پیدا فرمایا پھر اس پر پہاڑ گاڑ دئیے۔ اس کے بعد دو دن میں سات آسمان بنائے ہر آسمان کو اس کے متعلقہ امور کا حکم دیا۔ پھر آسمان دنیا کو ستاروں سے سجایا اور شہاب ثاقب سے اس کی حفاظت کا بندوبست کیا۔ یہ ہے تمہارا رب جس نے پوری کائنات کو پیدا کیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اہل مکہ اللہ کی توحید کا انکار کرتے اور لوگوں کو قرآن پڑھنے اور سننے سے روکتے تھے۔ انہیں سمجھانے اور برے انجام سے آگاہ کرنے کے لیے قوم عاد کا مختصر ذکر کیا گیا ہے۔ اس سورت میں آپ کو ارشاد فرمایا کہ سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو ” اللہ“ کی توحید پر ایمان لاتے ہیں اور اس کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوتے لہٰذا آپ برائی کا جواب نیکی اور حسن اخلاق سے دیں تاکہ تمہارا دشمن تمہارے اخلاق اور دعوت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائے اور وہ آپ کا جگری دوست بن جائے۔ یہ مقام صبر سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر کسی وقت آپ کو شیطان ورغلانے اور بھڑکانے کی کوشش کرے تو آپ ” اللہ“ کی پناہ مانگیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی انسان کو شیطان کی شرارتوں اور سازشوں سے بچانے والا ہے۔ حٰمٓ السجدہ کے آخر میں ان لوگوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور مصائب، مشکلات کے باوجود اپنے ایمان پر پکے رہے۔ جب ان کو موت آئے گی تو ملائکہ انہیں تسلی دیں گے کہ کسی قسم کا خوف کھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے جنت کی خوشخبری ہے تم اس میں ہمیشہ رہو گے اور ہم دنیا میں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ ہوں گے، جنت میں جو چاہو گے سو پاؤ گے وہاں رب رحیم کی طرف سے تمہاری مہمان نوازی کی جائے گی۔ یہ مہمانوازی ان لوگوں کے نصیب میں ہوگی جو ” اللہ“ کی توحید اور اس کے تقاضے پورے کریں گے۔ سجدہ تلاوت کی دعا : (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ کَانَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ فِیْ سُجُوْدِ الْقُرْاٰنِ بالَّلیْلِ سَجَدَ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ خَلَقَہٗ وَشَقَّ سَمْعَہٗ وَبَصَرَہٗ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ فَتَبارَکَ اللّٰہُ أحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ) [ المستد رک علی الصحیحین للحاکم] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) قیام اللیل میں سجدہ تلاوت کے وقت یہ دعا کرتے تھے۔ میرا چہرہ اس ذات کا مطیع ہوا جس نے اپنی قدرت سے اسے بنا کرکان اور آنکھیں عطاکیے۔ اللہ تعالیٰ بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“