سورة غافر - آیت 64

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ وہ ہے جس نے تمھارے لیے زمین کو رہنے کی جگہ اور آسمان کو چھت بنایا اور تمھاری صورت بنائی تو تمھاری صورتیں اچھی بنائیں اور تمھیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، یہ ہے اللہ تمھارا رب، سو بہت برکت والا ہے اللہ جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : جس ” اللہ“ نے اپنی ذات سے مانگنے کا حکم دیا ہے اور جس نے رات کو پرسکون بنایا اور دن کو روشن کیا ہے اس کی یہ بھی صفت اور قدرت ہے کہ اس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور وہی لوگوں کی شکل و صورت بناتا ہے اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں مشرک اور کافر جھگڑتے ہیں۔ حالانکہ اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے لوگوں کے لیے زمین کو جائے قرار بنایا اور آسمان کو چھت ٹھہرایا ہے اور پھر وہی ہے جو لوگوں کی بہتر سے بہتر شکل و صورت بناتا ہے اور اسی نے انسانوں کے لیے پاکیزہ رزق کا بندوبست کیا ہے۔ اس کے سوا کوئی زندہ یا فوت شدہ اور کوئی بھی ہستی نہیں جس نے ان میں سے کوئی ایک کام کیا ہو یا ان کاموں میں کسی کا عمل دخل ہو۔ صرف ایک ” اللہ“ ہی سب کچھ پیدا کرنے والا ہے اور سارے کا سارا نظام چلا نے والا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ اپنی تین قدرتوں کا ذکر فرمایا ہے۔1 ۔اس نے صرف زمین بنائی ہی نہیں بلکہ لوگوں اور ہر جاندارکے رہنے کے لیے اسے جائے قرار بھی بنایا ہے۔ پہلے یہ زمین حرکت کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر پہاڑوں کی میخیں لگا دیں جس سے زمین میں ٹھہراؤ اور قرار پیدا ہوا۔2 ۔اللہ تعالیٰ نے زمین کے ساتھ انسان کا انس یعنی قرار پیدا کردیا ہے جس وجہ سے ہر انسان اور جاندار اپنے علاقہ، بستی اور گھرکے ساتھ پیار کرتا ہے۔ بیشک پردیس میں اسے ہر چیز میسر ہو مگر پھر بھی اس کا دل اپنے وطن اور گھر کی طرف ہی مائل رہتا ہے۔ 3 ۔زمین اس لحاظ سے بھی جائے قرار ہے کہ انسان کی زندگی بھر کی جسمانی ضروریات کا تعلق زمین کے ساتھ وابستہ ہیں۔ 4۔ انسان کا وجود زمین سے بنایا گیا ہے اور موت کے بعد اس نے مٹی میں جانا ہے لہٰذا اوّل و آخر انسان کاٹھکانہ یہی زمین ہے۔ بہرحال یہ زمین انسان کے لیے کئی اعتبار سے جائے قرار ہے۔ ” اللہ“ ہی لوگوں کی شکل و صورت بنانے والاہے : اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کی تخلیق کے مختلف مراحل کا بار ہا دفعہ ذکر فرمایا ہے۔ یہاں انسان کی تخلیق کے آخری مرحلہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ” اللہ“ ہی وہ ذات بابرکات ہے جس نے تمہیں بہتر سے بہترین شکل میں پیدا فرمایا۔ اسی بات کو دوسرے مقام پریوں بیان فرمایا ہے۔“ ” بے شک اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز چھپی نہیں ہے۔ وہی ماں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جس طرح چاہتا ہے بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ نہایت غالب اور خوب حکمت والا ہے۔“ (آل عمران : 5، 6) ” قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی اور طو رسیناء کی اور اس امن والے شہر کی۔ یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے“ (التین : 1تا4) (عَن أَبِیْ مُوسَی الْأَشْعَرِیِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیعِ الْأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمْ الْأَحْمَرُ وَالْأَبْیَضُ وَالْأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذٰلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ) [ رواہ ابو داود : کتاب السنہ، باب فی القد ر] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا جو ساری زمین سے لی گئی آدم کی اولاد زمین کے مطابق ہوئی۔ ان میں سرخ، سفید سیاہ اور درمیانی رنگت کے لوگ ہیں ان میں سخت بھی ہیں اور نرم طبیعت بھی، نیک بھی ہیں اور بد بھی۔“ ” اللہ“ ہی لوگوں کو رزق دینے والاہے : اللہ تعالیٰ نے انسان کے صرف رزق کام بندوبست نہیں کیا بلکہ رزق طیب سے نوازا ہے۔ طیب کا معنٰی ایسا رزق جو پاک بھی ہو اور طبع انسانی کے موافق بھی۔ انسان جب شکم مادر میں تھا تو اس کے لوتھڑے کو خون کی ضرورت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کے خون سے اس لوتھڑے کی پرورش کی۔ جب لوتھڑے نے انسانی وجودکی شکل اختیارکی تو ماں کی خوراک سے اس کی خوراک کا بندوسبت فرمایا۔ جب پیدا ہوا تو کھانے پینے کے قابل نہ تھا تو اس کے لیے ماں کی چھاتی سے دودھ جاری کیا۔ اس طرح عمر کے لحاظ سے اس کے رزق کابندوبست کیا جاتا ہے۔ انسان کے لیے جو چیز پیدا کی وہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے پاکیزہ اور طیّب پیدا فرمائی۔ پھلوں کو لیجیے ! اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح چھلکوں میں سنبھال کر رکھا ہے۔ گندم، چاول اور دیگراشیاء کو دیکھیں۔ بے شک وہ گندے پانی میں ہی تیار کیوں نہ ہوئے ہوں۔ اس کے ذائقہ میں کسی قسم کی غلاظت کا ایک ذرہ بھی شامل نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اس میں بو تک نہیں پائی جاتی گائے، بھیڑ، بکری اور دیگر دودھ دینے والے چوپاؤں کو دیکھیں کہ بیشک وہ گلاسڑا چارہ کھائیں لیکن ان کے دودھ اور گوشت میں کڑواہٹ یا گندگی کا کوئی اثر نہیں پایا جاتا۔ اس کے ساتھ ہی اس بات پر غور کریں کہ دنیا میں کروڑوں انسان ہوئے اور ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی روزی کا اس قدر انتظام کیا ہے کہ ہر آنے والے وقت میں ان کی روزی میں اضافہ ہی کیا جارہا ہے۔ گندم اور چاول وغیرہ آج سے پہلے جس زمین میں تھوڑی مقدار میں پیدا ہوتے تھے آج وہی زمین دگنی مقدار دے رہی ہے۔ اس لیے ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی بابرکت ذات ہے جوجہانوں کو پیدا کرنے اور پالنے والا ہے۔ مسائل : 1۔ ” اللہ“ ہی نے زمین کو باعث قرار اور آسمان کو چھت بنایا۔ 2۔ ” اللہ“ لوگوں کی شکل و صورت بنانے والاہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہی رزق دینے والا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا پیدا کرنے والا اور سب کی ضرورتیں پوری کرنے والا ہے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ بابرکت ذات ہے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ بابرکت ہستی ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ بابرکت ذات ہے جس نے اپنے بندے پر حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب نازل کی تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں۔ (الفرقان :1) 2۔ بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں زمین و آسمان کی بادشاہت ہے۔ (الملک : 1) 3۔ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں برج بنائے۔ (الفرقان : 61) 4۔ ہر چیز تباہ ہوجائے گی صرف اللہ ہی وہ بابرکت ذات ہے جس کو دوام حاصل ہے۔ (الرحمن : 27) 5۔ اللہ تعالیٰ کی ذات زمین و آسمان کا نور ہے۔ (النور : 35) 6۔ بابرکت ہے وہ ذات جو سب سے احسن پیدا کرنے والی ہے۔ (النور : 14) 7۔ بابرکت ہے وہ ذات جو تمام جہانوں کو پالنے والی ہے۔ (المومن : 64)