وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ
اور تمھارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ بے شک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔
فہم القرآن : ربط کلام : اندھے پن سے نجات اور قیامت کی ہولناکیوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ صرف ایک رب کی عبادت کی جائے۔ اور صرف اسی سے دعائیں کی جائیں۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کی اکثریت ہمیشہ ایسی رہی ہے جو اپنے رب کی عبادت کرنے اور صرف اسی سے مانگنے کی بجائے بتوں، دیوتاؤں، جنّات اور فوت شدہ بزرگوں سے بالواسطہ یا بلاواسطہ مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی اور ہستی سے مانگنا اپنے رب کے ساتھ تکبّر کرنا ہے۔ کیونکہ اس کا حکم ہے کہ لوگو! صرف مجھ ہی سے مانگا کرو۔ میں ہی تمہاری دعاؤں کو قبول کرتا ہوں۔ جو لوگ للہ تعالیٰ سے اس کے حکم کے مطابق نہیں مانگتے وہ متکبر ہیں۔ اس کا فرمان ہے کہ عنقریب میں متکبرین کو جہنم میں ذلیل کروں گا۔ اس آیت کریمہ میں ہمارے رب کا حکم ہے کہ لوگو! دعا مجھ ہی سے کیا کرو۔ پھر اس دعا کو عبادت قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں ” اُدْعُوْا“ کو تین معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ دعا بمعنٰی عبادت : [ المومن :60] ” تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے بے پرواہی کرتے ہیں ضرور وہ ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔“ دعا کا معنی مدد طلب کرنا : [ البقرۃ:23] ” اللہ کے بغیر اپنے مدد گاروں سے مدد مانگواگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔“ دعا اور پکار : [ یونس :106] ” اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔“ دعا اور عقیدہ : انسان جس سے مانگتا ہے اس کے بارے میں تین باتوں میں سے کوئی ایک بات اس کے سامنے ضرور ہوتی ہے۔ وہ مجھے دیکھتا ہے، میری فریاد کو سنتا ہے اور میری مدد کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اوصاف اور قدرت رکھنے والاتو صرف ایک ” اللہ“ ہے۔ لہٰذا جو شخص ان میں کسی ایک بات کے بارے میں عقیدہ رکھتا ہے کہ یہ خوبی فلاں بزرگ، فرشتے، جن یا کسی اور میں بھی پائی جاتی ہے۔ تو وہ صرف شرک ہی نہیں کرتا بلکہ کفر کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ ان میں کوئی خوبی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی میں حقیقی طور پر نہیں پائی جاتی۔ ( اَلدُّعَاءُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلوۃ، باب الدعاء] ” دعا عبادت ہے۔“ (عن انس قال قال رسول الله( ﷺ) لِيَسألْ أحكمُ ربَّهُ حاجتَهُ كلَّها ، حتَّى يَسألَ شَسعَ نعلِهِ إذا انقَطعَ)(رواه الترمذی:ابواب الدعوات(ضعیف)) حضرت انس بیان كرتے ہیں کہ رسول الله( ﷺ)نے فرمایا:تم میں سے ہر ایك كو اپنی ہر حاجت الله سے مانگنی چاهیے،یهاں تك کہ اگر جوتے كا تسمہ ٹوٹ جائے تو وه بهی الله سے مانگے۔‘‘ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا کو قبول کرتا ہوں۔ 2۔ جو لوگ صرف ایک رب سے نہیں مانگتے وہ تکبر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو جہنم میں داخل کریگا۔ تفسیر بالقرآن : دعا کے بارے میں ہدایات : 1۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مجھ سے مانگو۔ ( المؤمن :60) 2۔ اللہ تعالیٰ شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ ( ق :16) 3۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں اپنے بندوں کے قریب ہوں اور ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہوں۔ ( البقرۃ:186) 4۔ اے لوگو! تم محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ غنی ہے۔ ( فاطر :15) 5۔ ہمارے رب ہم نے ایمان کی دعوت قبول کی تو ہماری خطاؤں کو معاف فرما۔ (آل عمران :193) 6۔ اے رب ہمارے ! ہمیں اور ہمارے مومن بھائیوں کو معاف فرما۔ (الحشر :10) 7۔ جب طالوت اور جالوت کے لشکر بالمقابل ہوئے تو انھوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہم پر صبر نازل فرما اور ہمیں ثابت قدم فرما اور کافروں کی قوم پر ہماری مدد فرما۔ (البقرۃ:250) 8۔ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب بے شک ہم ایمان لائے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ (آل عمران :16)