لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ
تیرے اختیار میں اس معاملے سے کچھ بھی نہیں، یا وہ ان پر مہربانی فرمائے، یا انھیں عذاب دے، کیوں کہ بلا شبہ وہ ظالم ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 128 سے 129) ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ کی نصرت کے بغیر کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا۔ اسی طرح معاف کرنا یا کسی کو عذاب دینا بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے کیونکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ غزوۂ احد میں مسلمانوں کے سر کردہ جنگجو یہاں تک کہ حضرت حمزہ (رض) بڑی بیدردی کے ساتھ شہید کردیے گئے اور رسول مکرم (ﷺ) کی ذات اقدس کو بھی زخم آئے، رباعی دانت شہید ہوا اور آپ بے ہوش ہو کر ایک گھاٹی میں جا گرے جونہی ہوش سنبھالا تو آپ کی زبان اطہر سے بے ساختہ بددُعا نکلی : (کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوْا نَبِیَّھُمْ وَکَسَرُوْا رُبَاعِیَتَہٗ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ إِلَی اللّٰہِ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ﴾) [ رواہ مسلم : کتاب الجھاد والسیر، باب غزوۃ أحد] ” وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کاسر پھوڑ ڈالا اور اس کا دانت شہید کردیا؟ حالانکہ وہ انہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی کہ میرے محبوب! آپ کو کسی چیز کا اختیار نہیں ہے۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَر (رض) أَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) إِذَ ارَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ مِنَ الرَّکْعَۃِ الْآخِرَۃِ مِنَ الْفَجْرِ یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا بَعْدَ مَایَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ ﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ﴾إِلٰی قَوْلِہٖ ﴿فَإِنَّھُمْ ظَالِمُوْنَ﴾ وَعَنْ حَنْظَلَۃَ بْنِ أَبِیْ سُفْیَانَ سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ یَقُوْلُ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَدْعُو عَلٰی صَفْوَانَ بْنِ أُمَیَّۃَ وَسُھَیْلِ بْنِ عَمْرٍو وَالْحَارِثِ بْنِ ھِشَامٍ فَنَزَلَتْ ﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ﴾إِلٰی قَوْلِہٖ ﴿فَإِنَّھُمْ ظَالِمُوْنَ﴾) [ رواہ البخاری : کتاب المغازی، باب﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ﴾ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) سے سنا جب آپ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع سے سر اٹھا نے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد دعا کر رہے تھے۔ اے اللہ! فلاں اور فلاں پر لعنت فرما۔ تب اللہ تعالیٰ نے ﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ۔۔ فَإِنَّھُمْ ظَالِمُوْنَ﴾ آیت نازل فرمائی۔ حنظلہ بن ابی سفیان نے سالم بن عبداللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ (ﷺ) صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام کے لیے بد دعا کرتے تو ﴿لَیْسَ لَکَ مِنَ الْأَمْرِ شَیْءٌ۔۔ فَإِنَّھُمْ ظَالِمُوْنَ﴾ آیت نازل ہوئی۔“ اس فرمان میں آپ کی توجہ مبذول کروائی گئی ہے کہ میرے محبوب! آپ کو دل شکستہ اور حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے کیونکہ کسی کو معاف کرنا یا اسے عذاب دینا آپ کے اختیار میں نہیں یہ تو رب کبریا کے فیصلے ہیں جو اس کی حکمت کے مطابق صادر ہوتے ہیں۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اسی کی ملکیت ہے اور وہ لا محدود اختیارات اور ہر چیز کی ملکیت رکھنے کے باوجود معاف کرنے والا اور نہایت ہی مہربان ہے۔ آپ کو بددعا سے منع کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ تھوڑے ہی عرصے بعد احد میں کفار کے لشکر کی کمان کرنے، رسول اللہ (ﷺ) اور مسلمانوں کوسب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے خالد بن ولید، عمرو بن عاص، ابوسفیان بن حرب اور بڑے بڑے لوگ مسلمان ہوئے یہاں تک کہ پورے عرب میں لوگ حلقۂ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ مسائل : 1۔ حقیقتاً کسی کو معاف کرنا یا عذاب دینا صرف اللہ کا اختیار ہے۔ 2۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ غفورورحیم ہے۔ تفسیر بالقرآن : اللہ ہی مختار کل ہے : 1۔ نبی (ﷺ) کسی پر عذاب نازل کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ (آل عمران :128) 2۔ رسول اللہ (ﷺ) کو منافقین کے لیے دعا اور ان کی قبروں پر جانے سے روک دیا گیا۔ (التوبۃ:84) 3۔ نبی مشرک کے لیے دعائے مغفرت کرنے کا مجاز نہیں۔ (التوبۃ:113) 4۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ (ﷺ) کی رضا کا پابند نہیں۔ (التوبۃ:96) 5۔ رسول اللہ (ﷺ) نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ (الجن :21) 6۔ رسول اللہ (ﷺ) جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے۔ (القصص :56)