وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنتُم مُّغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِّنَ النَّارِ
اور جب وہ آگ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور لوگ ان سے کہیں گے جو بڑے بنے ہوئے تھے کہ بے شک ہم تمھارے ہی پیچھے چلنے والے تھے، تو کیا تم ہم سے آگ کا کوئی حصہ ہٹانے والے ہو؟
فہم القرآن: (آیت47سے50) ربط کلام : آل فرعون اور دوسرے جہنّمیوں کا جہنّم میں کیا حال ہوگا؟ جب جہنّمی جہنم میں جھونکے جائیں گے تو وہ آپس میں جھگڑیں گے۔ جو لوگ دنیا میں جس کسی کی تابعداری کرتے تھے ان سے کہیں گے کہ ہم تمہارے تابعدار تھے۔ کیا اب تم آگ کا کچھ حصہ ہم سے ہٹا سکتے ہو۔ بڑے لوگ کہیں گے کہ ہم سب اس آگ میں اکٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرچکا ہے۔ اس کا فیصلہ بدلنے کی نہ ہم میں ہمّت ہے اور نہ تم بدل سکتے ہو۔ لہٰذا ہم نے اسی آگ میں رہنا ہے۔ اس کے بعد نہایت مجبور ہو کر جہنم کے فرشتوں سے کہیں گے کہ تم ہی ہمارے لیے اپنے پروردگار سے سفارش کرو! کہ ایک دن تو عذاب سے رخصت مل جایا کرے۔ ملائکہ جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہیں سمجھانے والے نہیں آئے تھے ؟ جہنمی جواب دیں گے کہ کیوں نہیں وہ تو ہمیں سمجھاتے رہے لیکن ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی۔ فرشتے کہیں گے۔ ہم میں تو تمہاری سفارش کرنے کی ہمت نہیں۔ تم خود ہی اپنے رب سے فریاد کرو! لیکن کفار کا فریاد کرنا انہیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔ دوسرے مقام پر جہنّمیوں کی حالت زار کو یوں بیان کیا گیا ہے۔ [ الزمر : 71، 72] ” کافرگروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے۔ جب وہ جہنم کے پاس پہنچے جائیں گے تو اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے۔ جہنم کے دربان جہنمیوں سے سوال کریں گے کہ کیا تمہارے پاس تم میں سے رسول نہیں آئے تھے ؟ تمہیں تمہارے رب کی آیات سناتے تھے اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے۔ جہنمی جواب دیں گے کہ ہاں آئے تھے لیکن عذاب کا حکم ہم پر ثابت ہوگیا۔ کہا جائے گا کہ اب جہنّم کے دروازوں سے داخل ہوجاؤ ! جہاں تم نے ہمیشہ رہنا ہے، پس سرکشوں کا ٹھکانہ بہت ہی برا ہے۔“ [ الاعراف : 38، 39] ” اللہ تعالیٰ فرمائے گا ان جماعتوں کو جو تم سے پہلے گزرچکی ہیں آگ میں داخل ہوجاؤ، جب بھی کوئی جماعت داخل ہوگی اپنے سے پہلی جماعت پر لعنت کرے گی یہاں تک کہ جب سب ایک دوسرے سے آملیں گے تو ان کی پچھلی جماعت اپنے سے پہلی جماعت کے متعلق کہے گی اے ہمارے رب ! ان لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا تو انہیں آگ کا دگنا عذاب دے۔ اللہ فرمائے گا سبھی کے لیے دگنا ہے لیکن تم نہیں جانتے۔ اور ان کی پہلی جماعت اپنے سے بعد والی جماعت سے کہے گی تمہیں ہم پر کوئی برتری حاصل نہیں عذاب چکھو اس کے بدلے جو تم کمایا کرتے تھے۔“ مسائل: 1۔ جہنمی جہنم میں ایک دوسرے سے جھگڑا کریں گے۔ 2۔ کمزور اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ ہماری کچھ نہ کچھ مدد کرو! 3۔ بڑے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوچکا۔ ہم تمہاری مدد نہیں کرسکتے۔ 4۔ جہنمی جہنم کے فرشتوں سے کہیں گے کہ اپنے رب سے فریاد کرو ! لیکن ملائکہ سفارش کرنے سے انکار کریں گے۔ تفسیربالقرآن: جہنم میں جہنمیوں کا آپس میں جھگڑا کرنا : 1۔ قیامت کے دن پیر مرید ایک دوسرے کا انکار کریں گے اور ایک دوسرے پر پھٹکار کریں گے۔ (العنکبوت :25) 2۔ قیامت کے دن پیشوا اپنے پیرو کاروں سے براءت کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ:166) 3۔ قیامت کے دن گمراہ پیروں اور لیڈروں کے پیچھے لگنے والے کہیں گے اگر دنیا میں جانا ہمارے لیے ممکن ہو تو ہم تم سے علیحدگی اختیار کریں گے۔ (البقرۃ:165) 4۔ کمزور بڑوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔ (سبا : 31، 32) 5۔ قیامت کے دن مجرم دوزخ میں جھگڑیں گے تو چھوٹے لوگ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے۔ (المومن :48) 6۔ قیامت کے دن جہنمیوں کا آپس میں جھگڑنا یقینی ہے۔ ( ص :64) 7۔ مجرم اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کے لیے اپنے برے اعمال کا کلیتاً انکار کریں گے۔ (الانعام :23) 8۔ مجر م اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گناہوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالیں گے۔ (الاحزاب : 66۔68)