وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ ۚ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ
اور انھیں قریب آنے والی گھڑی کے دن سے ڈرا جب دل گلوں کے پاس غم سے بھرے ہوں گے، ظالموں کے لیے نہ کوئی دلی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی، جس کی بات مانی جائے۔
فہم القرآن: (آیت18سے20) ربط کلام : قیامت کے دن کسی پر کوئی زیادتی نہ ہوگی اس کے باوجود لوگوں کے کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے۔ رب ذوالجلال کا رعب اور قیامت کے حساب و کتاب کے ڈر کی وجہ سے لوگوں کے کلیجے ان کے حلق تک آچکے ہوں گے۔ اس وقت ظالموں کا کوئی خیر خواہ اور سفارشی نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت اور دلوں میں چھپے ہوئے خیالات کو جانتا ہے وہ اپنے بندوں کو سچائی کا حکم دیتا ہے۔ اس کے سوا جن کو پکارا جاتا ہے وہ کوئی بھی حکم نہیں دے سکتے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سب کو سننے والا اور ہر چیز کو دیکھنے والاہے۔ سچائی سے پہلی مراد ” اللہ“ کی توحید اور اس کے تقاضے ہیں۔ قیامت کے دن ظالموں کا یہ حال ہوگا کہ ربِّ ذوالجلال کے خوف کی وجہ سے ان کے کلیجے ان کے حلقوں میں اٹک جائیں گے اور ظالم اس قدر پریشان ہوگے کہ ان کے چہروں سے ان کی ذلت اور پریشانی بالکل عیاں ہوگی۔ وہ اپنے دوست و احباب سے مدد طلب کریں گے مگر کوئی بھی ان کی مدد کے لیے تیار نہ ہوگا۔ مجرم حساب و کتاب کے ابتدائی مرحلے میں جھوٹی قسمیں کھا کر اپنے گناہوں کا انکار اور انہیں چھپانے کی کوشش کریں گے مگر اللہ تعالیٰ سے کچھ بھی چھپا نہیں سکیں گے۔ کیونکہ وہ انسان کی آنکھوں کی خیانت اور اس کے دل میں چھپے ہوئے خیالات کو جانتا ہے۔ مشرک اس لیے شرک کرتا ہے کہ قیامت کے دن اس کے ٹھہرائے ہوئے شریک اسے بچالیں گے مگر جب قیامت قائم ہوگی تو اللہ تعالیٰ سے کوئی کسی کو چھڑانہیں سکے گا۔ وہاں صرف اللہ تعالیٰ ہی فیصلے کرنے والا ہوگا جو حق اور سچ کے ساتھ لوگوں کے درمیان فیصلے صادر فرمائے گا۔ اس کا فرمان ہے کہ کسی پر ذرہ برابر زیادتی نہ ہوپائے گی۔ دنیا میں بھی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے سامنے ہے اور قیامت کے دن بھی سامنے ہوگی۔ وہ ہر حال میں ہر بات سننے والا اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے۔ (عَنِ الْمِقْدَادِ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) یَقُوْلُ تُدْ نَیْ الشَّمْسُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مِنَ الْخَلْقِ حَتّٰی تَکُوْنَ مِنْھُمْ کَمِقْدَارِ مِیْلٍ فَیَکُوْنُ النَّا سُ عَلٰی قَدْرِ اَعْمَالِھِمْ فِیْ الْعَرَ قِ فَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یَّکُوْنُ اِلٰی حَقْوَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ یُّلْجِمُھُمُ الْعَرَقُ اِلْجَامًا وَاَشَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) بِیَدِہٖ اِلٰی فِیْہِ) [ رواہ مسلم : باب فِی صِفَۃِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ أَعَانَنَا اللَّہُ عَلَی أَہْوَالِہَا] ” حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے سرورِدو عالم (ﷺ) کو یہ فرماتے سنا‘ آپ (ﷺ) فرمارہے تھے قیامت کے دن سورج لوگوں سے ایک میل کی مسافت پر ہوگا لوگوں کا پسینہ ان کے اعمال کے مطابق ہوگا بعض لوگوں کے ٹخنوں تک‘ بعض کے گھٹنوں تک بعض کی کمر تک اور بعض کے منہ تک پسینہ ہوگا یہ بیان کرتے ہوئے رسول معظم (ﷺ) نے اپنے منہ کی طرف اشارہ فرمایا۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن ربِّ ذوالجلال کے خوف کی وجہ سے ظالموں کے کلیجے ان کے حلق میں اٹک جائیں گے۔ 2۔ قیامت کے دن ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی کہ جس کی بات مانی جائے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھید جانتا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے دن حق اور سچ کیساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ 5۔ قیامت کے دن اللہ کے سوا کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ 6۔ یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ تفسیربالقرآن: قیامت کے دن کفار اور مشرکین کا کوئی مددگار نہیں ہوگا : 1۔ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ (ہود : 20۔ البقرۃ:107) 2۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ایسا نہیں جو تمہاری مدد کرسکے۔ (البقرۃ:120) 3۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ولی اور بچانے والا نہیں ہے۔ (الرعد :37) 4۔ اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی ولی اور مددگار نہیں۔ (العنکبوت : 22۔ الشوریٰ:31)