قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ
کہہ دے پھر کیا تم مجھے غیر اللہ کے بارے میں حکم دیتے ہو کہ میں (ان کی) عبادت کروں اے جاہلو!
فہم القرآن: (آیت64سے65) ربط کلام : جب ہر چیز کا خالق اور وکیل صرف اللہ تعالیٰ ہے تو پھر عبادت اور تابعداری بھی اسی کی ہونی چاہیے۔ اس کے سوا کسی کی بندگی کی دعوت دینا جہالت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے آپ کو ہر حوالے سے کا ئنات کا خالق، مالک، بادشاہ اور وکیل ثابت کیا ہے۔ اس لیے ہر انسان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اسی کا حکم تسلیم کرے اور اسی کی بندگی بجالائے۔ لیکن کافر اور مشرک ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ مکہ کے مشرک نہ صرف اس بات کے انکاری تھے بلکہ ان کی کوشش تھی کہ محمد (ﷺ) اس دعوت کو چھوڑ دیں یا کم از کم اس بات پر سمجھوتہ کرلیں کہ ہم اس کے الٰہ کی عبادت کریں گے اور یہ وہ ہمارے معبودوں کی عبادت کرے۔ اس پر آپ (ﷺ) کو حکم ہوا کہ ان جاہلوں سے فرمادیں کہ مجھے اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی کے لیے کہتے ہو؟ حالانکہ اس نے میری طرف اور مجھ سے پہلے تمام انبیائے کرام (علیہ السلام) کی طرف وحی کی ہے کہ اگر تو نے شرک کیا تو تیرا ہر عمل ضائع ہوجائے گا اور تو نقصان پانے والوں میں شامل ہوگا۔ انبیاء ( علیہ السلام) کا ذکر فرما کر اشارہ دیا ہے کہ ہر نبی کو انہیں الفاظ میں کہا گیا تھا کہ اگر تو نے شرک کیا تو تیرے تمام اعمال ضائع کرد ئیے جائیں گے۔ دوسرے مقام پر بڑے بڑے اٹھارہ (18) انبیائے کرام (علیہ السلام) کا نام لے کر یہ بات کہی گئی ہے۔ ” یہ ہماری دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلے میں دی ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کرتے ہیں بے شک آپ کا رب بڑی حکمت والا، خوب جاننے والاہے۔” اور ہم نے اسے اسحق اور یعقوب عطاکیے۔ ان سب کو ہدایت دی اور اس سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے۔” اور اسماعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ان سب کو جہانوں پر فضیلت دی۔ اور ان کے باپ دادا اور ان کی اولاد اور انکے بھائیوں میں سے بعض کو بھی اور ہم نے انہیں چن لیا اور انہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔“ (الانعام : 83تا87) ﴿ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ لَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْن﴾[ الانعام :88] ” یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور اگر یہ لوگ شرک کرتے تو ان کے اعمال بھی ضائع ہوجاتے۔“ (88) (جاءَ أعْرابِيٌّ إلى النَّبيِّ (ﷺ)، فقالَ: يا رَسولَ اللَّهِ، ما الكَبائِرُ؟ قالَ: الإشْراكُ باللَّهِ. قالَ: ثُمَّ ماذا؟ قالَ: ثُمَّ عُقُوقُ الوالِدَيْنِ. قالَ: ثُمَّ ماذا؟ قالَ: اليَمِينُ الغَمُوسُ) ایك دیهاتی نبی کریم (ﷺ) کے پاس آیا کہنے لگا: یا رسول اللہ! بڑے بڑے گناہ کون سے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔“ اس نے پوچھا پھر کون سا گناہ؟ آپ نے فرمایا ”ماں باپ کو ستانا۔“ پوچھا: پھر کون سا گناہ؟ آپ نے فرمایا ” جھوٹی قسم کھانا۔“ مسائل: 1۔ مشرک آپ (ﷺ) کو بھی شرک کی دعوت دیتے تھے۔ 2۔ شرک سے نیک اعمال برباد اور ضائع ہوجاتے ہیں۔ 3۔ تمام انبیاء کی طرف یہ وحی کی گئی کہ ان میں سے کسی نے بھی شرک کیا تو اس کے اعمال اکارت ہوجائیں گے۔ 4۔ شرک کی دعوت دینا جاہلوں کا کام ہے۔ تفسیر بالقرآن: شرک کی بڑی بڑی اقسام : 1۔ اللہ کی ذات میں کسی کو شریک ٹھہرانا۔ (الکہف :42) 2۔ اللہ تعالیٰ کے حکم میں دوسروں کو اس کا شریک بنانا۔ (الکہف :26) 3۔ اللہ کی صفات میں شرک کرنا۔ (الکہف :102) 4۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائیں : (الکہف :110) 5۔ اللہ ہی پیدا کرتا ہے اور ووہی مختار کل ہے دوسروں کو کوئی اختیار نہیں ہے اللہ ان کے شرک سے پاک ہے۔ (القصص :68) 6۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کو ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کا اسے علم نہیں ہے اللہ پاک ہے اور مشرکوں کے شرک سے بلندو بالا ہے۔ (یونس :18) 7۔ اللہ تعالیٰ کا حکم آچکا ہے کہ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس چیز سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ (النحل :1) 8۔ مشرک اپنے آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔ (البقرۃ:170) 9۔ مشرک کو اللہ کی بیٹیاں سمجھ کر عبادت کرتے ہیں۔ (النجم :28) 10۔ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہمیں ہمارے آباء و اجداد کافی ہیں۔ (المائدۃ:104)