قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
کہہ دے اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ، بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے۔ بے شک وہی تو بے حدبخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : اس سے پہلی آیت میں مال کی کمی، بیشی کے بارے میں ایک غلط فہمی کا ازالہ فرمایا ہے۔ اب گناہگاروں کی غلط فہمی دور کی جارہی ہے : گناہگار بالخصوص بڑے بڑے جرائم کرنے والوں کو ہمیشہ سے غلط فہمی رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہ کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اس غلط فہمی کی بنیاد پر کچھ لوگ جرائم میں آگے ہی بڑھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ انہیں موت آ لیتی ہے۔ کچھ لوگ یہ یقین کرلیتے ہیں کہ جب تک فلاں قبر والے یا زندہ بزرگ کو راضی نہیں کریں گے اس وقت تک ہماری توبہ قبول نہ ہوگی۔ اس غلط فہمی کو ان لوگوں نے مزید پختہ کیا جو مذہب کی آڑ میں مال بٹورتے اور لوگوں کی حرمتوں سے کھیلتے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں میں بے شمار پیر، ہندؤوں میں سادھو، عیسائیوں میں پادری بدنام ہیں اور یہ لوگ دین اور توبہ کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ قرآن مجید نے ان کے بارے میں نشاندہی فرمائی ہے۔ ” مسلمانو! بہت سے مولوی اور مشائخ لوگوں کے مال ناحق کھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے روکتے ہیں۔“ (التوبہ :34) گناہگاروں بالخصوص کفر و شرک اور بڑے بڑے جرائم کرنے والوں کو رب کریم نے بڑے پیار اور دلرُباانداز میں بلایا ہے اور یقین دلایا ہے کہ اے میرے بھٹکے ہوئے بندو ! تمہیں مایوس ہونے اور کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ آؤ میری بارگاہ میں آجاؤ تم جیسے بھی ہو میرے ہی بندے ہو۔ میری رحمت بے کنارہے لہٰذا میری رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔ یقین کرو کہ میں تمہارے تمام کے تمام گناہ معاف کردوں گا کیونکہ میں معاف کرنے والا اور مہربان ہوں۔ اس آیت کریمہ کی باربار تلاوت کریں اور اس کے الفاظ پر غور فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ اپنا عظیم نام اللہ لے کر نبی اکرم (ﷺ) کو فرمایا کہ میرے بندوں کو میرا نام لے کر کہیں کہ میری رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔ ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ کچھ مشرکوں نے بہت سے قتل اور بکثرت زنا کیے تھے وہ آپ (ﷺ) کے پاس آ کر کہنے لگے آپ جو کچھ کہتے ہیں اور جس دین کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ بہت اچھا ہے۔ مگر آپ (ﷺ) ہمیں یہ بتائیں کہ کیا ہمارا اسلام لانا ہمارے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا؟ اس وقت ﴿وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللَّہِ إِلَہًا آخَرَ﴾ اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو نہیں پکارتے۔“ تا آخر اور سورۃ الزمر کی یہ آیت ﴿قل یَا عِبَادِیَ الَّذِین﴾ تا آخر نازل ہوئی۔“ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ﴿یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ ﴾] (عَنْ أَبِیْ سَعَیْدٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ إِنَّ الشَّیْطَانَ قَالَ وَعِزَّتِکَ یَا رَبِّ لَا أَبْرَحُ أَغْوِیْ عِبَادَکَ مَا دَامَتْ أَ رْوَاحُہُمْ فِیْ أَجْسَادِہِمْ، فَقَال الرَّبُّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی وَعِزَّتِیْ وَجَلاَلِیْ لاَ أَزَالُ أَغْفِرُ لَہُمْ مَا اسْتَغْفَرُوْنِیْ )[ رواہ الحاکم فی المستدرک : کتاب التوبۃ والانابۃ ] ” حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں بے شک رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا شیطان نے کہا اے میرے رب! تیری عزت کی قسم میں ہمیشہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا جب تک ان کے جسموں میں روحیں موجود ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا مجھے میری عزت اور جلال کی قسم! میں ہمیشہ انہیں معاف کرتا رہوں گا جب تک یہ مجھ سے بخشش طلب کرتے رہیں گے۔“ (عَنْ أَنَسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) فِیْمَا یَرْوِیْہِ عَنْ رَبِّہٖ قَالَ إِذَا تَقَرَّبَ الْعَبْدُ إِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا وَإِذَا تَقَرَّبَ مِنِّیْ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ بَاعًا وَإِذَا أَتَانِیْ یَمْشِیْ أَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید] ” حضرت انس (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں جو آپ نے اللہ تعالیٰ سے بیان کی گویا کہ یہ حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب بندہ میری طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتاہوں۔ جب وہ میری طرف ایک ہاتھ بڑھتا ہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتاہوں۔ جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتاہوں۔“ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن مجھے ایک عورت کہنے لگی کیا میرے لیے بھی توبہ ہے۔ میں نے زنا کیا حمل سے بچہ پیدا ہوا اور میں نے اسے قتل کر ڈالا۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ میرا گناہ معاف ہونے کی کوئی صورت ہے ؟ میں نے کہا ہرگز نہیں وہ بڑی حسرت کے ساتھ آہیں بھرتی ہوئی واپس چلی گئی۔ اگلے دن میں نبی (ﷺ) کے پیچھے صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو میں نے آپ (ﷺ) سے رات کا قصہ عرض کیا آپ نے فرمایا تو نے غلط جواب دیا ابوہریرہ تو نے قرآن میں یہ آیت نہیں پڑھی ﴿وَالَّذِینَ لا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَہًا آخَرَ ﴾إِلٰی قَوْلِہ ﴿إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صالِحًا فَأُولَئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَان اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا﴾ ” (اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے الٰہ کو نہیں پکارتے) اس فرمان تک (مگر جس نے توبہ کی اور نیک اعمال کیے یہی وہ لوگ ہیں اللہ تعالیٰ جن کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔) نبی (ﷺ) کا جواب سن کر میں نکلا اور اس عورت کو تلاش کرنا شروع کیا، وہ مجھے عشاء ہی کے وقت ملی میں نے اسے بشارت دی اور بتایا کہ نبی کریم (ﷺ) نے تیرے سوال کا جواب یہ دیا ہے عورت سنتے ہی سجدے میں گر گئی اور کہنے لگی شکر ہے اس رب کا جس نے میرے لیے معافی کا دروازہ کھولا اور میری نجات کی راہ بنائی۔“ [ تفسیر طبری : جلد19] (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ فِی کِتَابِہٖ فَہُوَ عِنْدَہٗ فَوْقَ الْعَرْشِ إِنَّ رَحْمَتِی غَلَبَتْ غَضَبِی)[ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کائنات کی تخلیق سے فارغ ہوا تو اپنی کتاب میں جو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس عر ش کے اوپر ہے اس میں لکھا ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔“ مسائل: 1۔ بڑے سے بڑے مجرم کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ تمام کے تمام گناہ معاف کرنے والا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ گناہ معاف کرنے والا مہربان ہے۔ تفسیربالقرآن: ” اللہ“ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے : 1۔ ” اللہ“ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ (یوسف :87) 2۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ (الزمر :53) 3۔ ” اللہ“ کی رحمت سے گمراہوں کے سوا کوئی ناامید نہیں ہوتا۔ (الحجر :56) 4۔ اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کرنے والے اللہ کی رحمت سے مایوس ہیں۔ (العنکبوت :23) 5۔ مومن اللہ کی رحمت کے امیدوار ہوتے ہیں اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (البقرۃ:218) 6۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میں اپنے پروردگار کو پکاروں گا امید ہے کہ میں اس کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا۔ (مریم :48) 7۔ اس کی رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ (الاعراف :156) 8۔ اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہوا کرتی ہے۔ (الاعراف :56) 9۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر مہربانی کرنا از خود اپنے آپ پرلازم قرار دے لیا ہے۔ (الانعام :54)