قُلِ اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
تو کہہ اے اللہ! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے! ہر چھپی اور کھلی کو جاننے والے ! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کیا کرتے تھے۔
فہم القرآن: ربط کلام : بے شک مشرک اللہ تعالیٰ کی توحید کے ذکر سے ناراض اور دوسروں کے ذکر پر خوش ہوتے ہیں۔ اے نبی (ﷺ) ! آپ کو اس بات کی پرواہ کیے بغیر صرف ایک رب کا ذکر کرنا اور اسی سے مانگنا ہے۔ اے رسول (ﷺ) اپنے رب سے دعا کیجیے ! الٰہی ! تو ہی زمینوں اور آسمانوں کو پیدا کرنے والا اور تو ہی ہر چیز کے ظاہر اور باطن کو جاننے والا ہے اور تو ہی اپنے بندوں کے درمیان ان کے اختلافات کا فیصلہ کرنے والا ہے۔ مشرک اللہ کی وحدت کے ذکر پر ناراض اور اپنے معبودوں کے ذکر پر خوش ہوتے ہیں اور اہل توحید سے جھگڑا کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں نبی کریم (ﷺ) اور مسلمانوں کو یہ دعا سکھلائی گئی ہے کہ تمہیں مشرکین کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر اپنے رب کو یاد کرنا اور اس کی توحید کا پرچار کرتے رہنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ ذات کبریا کے حضور دعا کرتے رہو کہ اے بارِ الٰہا! تو ہی زمینوں آسمانوں کا پیدا کرنے والا، غائب اور ظاہر کو جاننے والا ہے اور قیامت کے دن اپنے بندوں کے اختلافات کے درمیان فیصلہ صادر فرمانے والا ہے۔ اس کا بین السطور معنٰی یہ ہے کہ الٰہی ہمیں ایسی طاقت عطا فرما کہ دنیا میں بھی حق و باطل کے درمیان فیصلہ ہوجائے۔ اسی لیے ہجرت سے پہلے آپ (ﷺ) کو یہ دعا سکھلائی گئی۔ ﴿وَ قُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا﴾ [ بنی اسرائیل : 80۔81] ” اور دعا کیجیے میرے رب ! داخل کر مجھے سچائی کے ساتھ داخل کرنا اور نکال مجھے سچائی کے ساتھ نکالنا اور مجھے غلبہ اور مدد عطا فرما۔ اور فرما دیں حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی والا تھا۔“ ﴿رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْن﴾[ الاعراف :89] ” اے ہمارے رب ! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔“ جانوروں کے درمیان فیصلہ : [عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ] [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔“ مسائل: 1۔ اللہ ہی زمینوں آسمانوں کا خالق اور ظاہر اور باطن کو جاننے والا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے۔ 3۔ مومن کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ہی مدد طلب کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کے درمیان قطعی اور آخری فیصلہ کرنے والا ہے : 1۔ بے شک تیرا رب قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (یونس :93) 2۔ اللہ تعالیٰ ان کے معاملات کا فیصلہ فرمائے گا۔ (البقرۃ :210) 3۔ اللہ تعالیٰ حق کے ساتھ فیصلہ فرماتا ہے۔ (المومن :20) 4۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان اپنے حکم سے فیصلہ فرمائے گا۔ (النمل :78) 5۔ اللہ تعالیٰ ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ (یونس :54) 6۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہارے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ (الحج :69) 7۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عدل وانصاف کا ترازو قائم فرمائے گا۔ (الانبیاء :47) 8۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا جو وہ اختلاف کرتے تھے۔ (الزمر :3) 9۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور مومنوں پر کافر کوئی راستہ نہیں پائیں گے۔ (النساء :141) 10۔ یا اللہ میرے حق میں فیصلہ فرمادے تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یوسف :80) 11۔ اے اللہ یقیناً تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (ھود :45) 12۔ وحی کی فرمانبرداری کرو اور صبر کرو تاآنکہ اللہ فیصلہ فرمادے اللہ تعالیٰ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یونس :109)