هَا أَنتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
دیکھو! تم وہ لوگ ہو کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے اور تم ساری کتاب پر ایمان رکھتے ہو اور وہ جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اکیلے ہوتے ہیں تو تم پر غصے سے انگلیوں کی پوریں کاٹ کاٹ کھاتے ہیں۔ کہہ دے اپنے غصے میں مر جاؤ، بے شک اللہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے۔
فہم القرآن : (آیت 119 سے 120) ربط کلام : اسلام کے دشمنوں سے دوستی نہ رکھنے کی مزید وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ مسلمانوں کا ضمیر جھنجھوڑنے اور غیرت دلانے کے لیے اب نیا انداز اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ تم کیسے لوگ ہو کہ تم ان سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہو اور وہ تمہارے ساتھ کوئی الفت نہیں رکھتے۔ تم خلوص نیت کے ساتھ قرآن مجید پر ایمان لائے ہو ان کی حالت یہ ہے کہ تمہارے ساتھ ملتے ہیں تو زبانی جمع خرچ کے طور پر ایمان کا دعو ٰی کرتے ہیں اور جب تم سے الگ ہوتے ہیں تو غیظ و غضب کی وجہ سے اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں۔ ان سے کہو کہ تم اپنے غصے کی آگ میں جل مرو۔ اللہ تعالیٰ سب کے دلوں کے حال کو جاننے والا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت علیم کے ذریعے مسلمانوں کو یہ باور کروایا ہے کہ کفار کے غیظ و غضب اور ان کے سینے کی حالت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا وہ تو تمہارے اعمال اور دلوں کی کیفیّات کو بھی جانتا ہے کہ تم کس حد تک کفار کی دوستی سے اجتناب کرنے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننے والے ہو۔ اگر تمہیں کوئی فائدہ اور اچھائی پہنچتی ہے تو ان کو بری لگتی ہے اور اگر تمہیں نقصان اور مصیبت پہنچے تو اس پر شاداں و فرحاں ہوتے ہیں۔ ہاں اگر تم صبر کرو، اللہ تعالیٰ کا خوف اختیار کرو اور کفار سے بچتے رہو تو ان کی سازشیں اور شرارتیں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دسترس سے کسی کا عمل اور سازش بڑھ نہیں سکتی۔ یہاں مسلمانوں کو اہل کتاب کے چار اخلاقی جرائم بتلا کر ان کے ساتھ قلبی محبت سے روکا گیا ہے۔ تم ان سے محبت کرتے ہو جبکہ وہ تم سے محبت نہیں کرتے۔ تم اللہ تعالیٰ کی کتاب پر مکمل ایمان رکھتے ہو جبکہ وہ صرف تمہارے سامنے ایمان کے دعوے دار ہیں۔ تمہارا فائدہ انہیں برا لگتا ہے اور تمہارے نقصان پر وہ خوش ہوتے ہیں۔ وہ تمہارے ساتھ حسد و بغض رکھتے اور ہر وقت تمہارے نقصان کے درپے رہتے ہیں۔ یہود کا غیظ وغضب : بنوکلاب کے دو مقتولوں جنہیں عمرو بن امیہ ضمری نے غلطی سے قتل کردیا تھا۔ ان کی دیت میں اعانت پر بات چیت کرنے کے لیے رسول اللہ (ﷺ) حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت علی اور صحابہ کرام (رض) کی ایک جماعت کے ساتھ یہود کے پاس تشریف لے گئے انہوں نے کہا : ابوالقاسم! آپ تشریف رکھیں ہم آپ کا مطالبہ پورا کیے دیتے ہیں۔ آپ صحابہ کے ہمراہ ان کے وعدے کی تکمیل کے انتظار میں ان کے گھروں میں سے ایک گھر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ یہودیوں نے تنہائی میں یہ مشورہ کیا کیوں نا ہم نبی کو ختم کردیں۔ انہوں نے آپس میں کہا : کون اس چکی کے پاٹ کو لے کر اوپر جائے وہاں سے اسے آپ کے سر پر گراکر آپ کو کچل دے؟ عمرو بن جحاش بدبخت یہودی نے اس کام کو اپنے ذمے لیا۔ ان میں سے سلام بن مشکم نے یہ کہہ کر روکا بھی کہ ایسا نہ کرو کیونکہ اللہ اسے اس بات کی خبر دے دے گا اور ہمارے آپس کے عہدوپیمان ختم ہوجائیں گے لیکن وہ نہ مانے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (ﷺ) کو جبریل (علیہ السلام) کے ذریعے یہودیوں کے ارادے سے آگاہ کردیا۔ آپ فورًا اٹھے اور تیزی کے ساتھ مدینے کی طرف چل پڑے۔ صحابہ کرام (رض) بھی آپ کے پیچھے پیچھے اٹھ آئے۔ پھر آپ نے صحابہ کرام کو سارا واقعہ بیان کیا۔ اس کے بعد محمد بن مسلمہ کو بنی نضیر کی طرف روانہ کیا۔[ ملخص ازالرحیق المختوم، غزوہ بنی نضیر] مسائل : 1۔ یہود ونصارٰی اور منافق علیحدگی میں مسلمانوں کے خلاف اپنے غیظ و غضب کے باعث اپنی انگلیاں چبانے لگتے ہیں۔ 2۔ اہل کتاب مسلمانوں کی ترقی پر ناخوش اور نقصان پر خوش ہوتے ہیں۔ 3۔ یہود و نصارٰی اور کفار کے ساتھ قلبی تعلق منقطع کرنے سے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں ہو سکتا۔ 4۔ مسلمانوں کو لوگوں سے ڈرنے کے بجائے صرف اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ 5۔ کفار کو راضی کرنے کے بجائے قرآن وسنت پر ثابت رہنا چاہیے۔ 6۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔