أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ ۚ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ
یا انھوں نے اللہ کے سوا کچھ سفارشی بنا لیے ہیں۔ کہہ دے کیا اگرچہ وہ کبھی نہ کسی چیز کے مالک ہوں اور نہ عقل رکھتے ہوں۔
فہم القرآن: (آیت43سے44) ربط کلام : جو سونے کے بعد اٹھنے پر اختیار نہیں رکھتے وہ رب ذوالجلال کے سامنے اپنی مرضی سے سفارش کس طرح کرسکتے ہیں؟ اس آیۃ مبارکہ سے چار آیات پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ کفار اور مشر کین سے پوچھو کہ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے؟ ان کا جواب یہی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہی زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ جب زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے اس میں سے کوئی چیز بھی اللہ کے سوا کسی نے پیدا نہیں کی تو پھر تم کس بنیاد پر یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں کو اپنی خدائی میں کچھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ جس بنیاد پربزرگ سفارش کریں گے اور وہ مسترد نہ ہو سکے گی۔ اے رسول (ﷺ) ! ان سے استفسار فرمائیں کہ بے شک انہیں سفارش کا اختیار نہ ہو اور جس کے بارے میں سفارش کرنی ہے اس کے بارے میں کچھ علم نہ ہو تو پھر بھی وہ سفارش کریں گے؟ انہیں سمجھائیں کہ سفارش کی اجازت دینے اور اسے قبول کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے کیونکہ وہی زمین و آسمانوں کا مالک ہے۔ تم اس کے مملوک ہو اور اسی کے ہاں تم نے پلٹ کر جانا ہے۔ وہ تمہیں بتائے گا کہ تم دنیا میں کیا کر کے آئے ہو۔ سفارش کے بارے میں قرآن مجید اور حدیث میں وضاحت موجود ہے کہ سفارش کرنے کی کن حضرات کو اجازت ہوگی اور وہ کن اصولوں کے تحت کس کس کی اور کس دائرہ کار کے اندر رہ کر سفارش کرسکیں گے۔ قرآن و حدیث میں یہ بات کھول کر بیان کردی گئی ہے کہ کافر، مشرک اور ظلم کرنے والوں کی سفارش کوئی بھی نہیں کرسکے گا۔ اسی لیے نبی اکرم (ﷺ) نے اپنی بیٹی اور پھوپھی کو فرمایا اور اپنے جدِانبیاء حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا تاکہ کسی کو غلط سفارش کے بارے میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی گرامی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا ابراہیم (علیہ السلام) قیامت کے دن اپنے باپ آزر سے ملیں گے اس کے چہرے پر سیاہی اور غبار ہوگا۔ ابراہیم (علیہ السلام) اسے کہیں گے کیا میں نے آپ سے کہا نہیں تھا؟ کہ میری نافرمانی نہ کرو۔ وہ کہے گا آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) عرض کریں گے کہ اے میرے رب آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرونگا میرے باپ سے زیادہ بڑھ کر اور کونسی رسوائی ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے۔ پھر کہا جائے گا ابراہیم اپنے پاؤں کی طرف دیکھو۔ ابراہیم (علیہ السلام) اپنے پاؤں کی طرف دیکھیں گے تو ان کا باپ کیچڑ میں لتھڑا ہوا بجو بن چکا ہوگا۔ جسے اس کی ٹانگوں سے پکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔“ [ رواہ البخاری : باب قول اللّٰہ تعالیٰ ﴿وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں جب یہ آیت (اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے) نازل ہوئی تو رسول اللہ (ﷺ) کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کے لوگو! اپنے لیے کچھ کر لومیں تمہیں اللہ کے عذاب سے فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے بنی عبد منا ف میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا‘ اے عباس بن عبدالمطلب ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اور رسول کی پھوپھی صفیہ! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا اور اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال سے جو چاہتی ہے مانگ لے میں تجھے اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکوں گا۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الوصایا] تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن سفارش کے اصول : 1۔ کون ہے جو اس کے حکم کے بغیر سفارش کرے۔ (البقرۃ:255) 2۔ قیامت کے دن سفارشی کسی کو فائدہ یا نقصان نہیں دیں گے۔ (یونس :18) 3۔ سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (الانبیاء :28) 4۔ اللہ تعالیٰ اپنی پسندکی بات ہی قبول فرمائیں گے۔ (طٰہٰ:109) 5۔ قیا مت کے دن کسی سفارشی کی سفارش کام نہیں آئے گی۔ (المدثر :48) 6۔ سفارش کا اختیار اسی کو ہوگا جسے رحمن اجازت دے گا۔ (مریم :78) 7۔ اگر رحمننقصان پہنچانا چاہے تو کسی کی سفارش کچھ کام نہ آئے گی۔ (یٰس :23)